عمران خان کے دیسی انڈے و مرغیاں اور بلوچستان


تاریخ کا مشاہدہ کرنے سے کہیں نظر نہیں آرہا کہ کسی قوم نے مرغیوں پر بیٹھ کر فتوحات حاصل کی ہوں۔ تاہم اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مرغی اور انڈے کچن کے ضروری اجزاء ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں عورتیں مرغیاں پالتی ہیں۔ ان کا گوشت اور انڈے فروخت کرتی ہیں مگر مجموعی معیشت میں ان کی اہمیت نہیں ہے۔ پتہ نہیں وزیر اعظم عمرا ن خان کو کیا سوجھی اور کس معیشت دان نے سمجھا یا کہ مرغی اور انڈے کی روایتی صنعت کو ترقی دینے سے ملک میں معاشی انقلاب آجائے گا۔

یا پھر ان کو یہ سوچ ڈاکٹر اکبر حریفال سے ملی ہے جو وہ بطور سکریڑی لائیوسٹاک بلوچستان تھے۔ وہ بھی کچھ ایسے آئیڈیاز کے قائل تھے۔ 44 کروڑ روپے صوبائی حکومت سے طلب کر لئے کہ وہ انڈوں کے ذریعے صنعتی انقلاب لائیں گے۔ لیکن 3 ارب 78 کروڑ روپے سالانہ تنخواہوں کی مد میں ادا کرنیوالے 6830 ملازمین کے محمے لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کی از سر نو نظر ثانی و تشکیل تو نہ کرسکے اور بطور سیکریڑی 2018 میں انگریز کے متعارف کردہ کیمل مین یعنی اونٹ چرانے والے کو بھی بھرتی کردیا اگرچہ اس کی اب ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

محکمہ لائیوسٹاک کی کہانی کچھ حیران کن ہے کہ جن حیوانات کے لئے یہ محکمہ معرض وجود میں لایا گیا ہے ان کے علاج معالجے کے لئے پورے صوبے کے جانوروں کی ادویات کے لئے دو کروڑ روپے سالانہ مختص ہیں۔ یعنی اس محکمے میں جانوروں کی بقاء کو نظر انداز کردیا گیا ہے جبکہ اس کو 6830 انسانوں کا ذریعہ روزگار بنادیا گیا ہے۔ بچارے جانور بے زبان جو ٹھہرے 3 ارب 78 کروڑ روپے سالانہ تنخواہیں لینے والے ملازمین نے 2006 کے بعد تاحال جانور شماری نہیں کی یعنی محکمے میں تعینات انسانوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ جس جانوروں کے بدلے اپنی روزی روٹی حاصل کر رہے ہیں ان کی تعداد کیا ہے ان میں بیمار و معذور کتنے ہیں۔

2006 کی جانور شماری کے مطابق ضلع پنجگور میں صرف تین سو مرغیاں تھیں۔ جبکہ اب ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ پنجگور میں ڈھائی لاکھ سے زائد مرغیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں المیہ یہی ہے کہ اس صوبے میں وزیر ہو یا یہاں کا مقامی سیکریٹری کسی نے محکمے کو اس انداز میں نہیں دیکھا ہے۔ جو اس محکمے کا تقاضا تھا۔ یعنی جو بجٹ محکموں کو تنخواہوں کی مد میں مل رہا ہے چاہے وہ ضروری ہو یا غیر ضروری اس پر کبھی نظر ثانی نہیں کی گئی ہے نہ ہی محکمے کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ کبھی بھی ہم نے بطور حکومت یا صوبہ یہ محسوس نہیں کیا کہ ہم سالانہ 3 ارب 78 کروڑ روپے خرچ کر رہے ہیں جبکہ اس کی آمدنی صرف چھ کروڑ روپے ہے، دنیا کا کوئی زی شعور شخص ایسا کاروبار کرنے کو تیار ہوگا؟

اس طرح کے تجربات ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جو کرپشن کی وجہ بنے بلوچستان میں طویل خشک سالی کے بعد اس وقت کے صدر جنرل مشرف کی حکومت نے 64 کروڑ روپے خشک سالی کے خاتمے کے لیے محکمہ لائیوسٹاک بلوچستان کو وفاق دیے تھے۔ تب قدوس بزنجو وزیر لائیوسٹاک تھے۔ جس میں مالداروں کو بکریاں اور مرغیاں دینے کی تجویز تھی۔ لیکن خدا گواہ ہے پیسے کاغذات میں خرچ ہوئے۔ لیکن آج تک کو کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا۔ جس کو مرغی یا کوئی بکری ملی ہو۔

بد قسمتی سے یہ صوبہ اس پھل دار درخت کی مانند ہے جس کو آج تک کوئی صحیح دیکھ بھال کرنے والا میسر نہیں آیا جو اس کو پانی دیتا اور کا خیال رکھتا۔ جس کو بھی دیکھ بھال ذمہ داری ملی اس نے اس کی جڑیں کانٹے کی کوشش کی ہے، اور یہاں کا ہر حکمران اس کو کاٹ کر اپنے فائدے کی خاطر اس کو اپنی جگہ سے نکال کر اپنے ضلع میں لے کر جانا چاہا ہے۔ درحقیقت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا خیال رکھا جاتا، اس کو پانی دیا جاتا، اس سے حاصل ہونے والے فروٹ کو منصفانہ طور پر تمام اضلاع کے درمیان تقسیم کیا جاتا۔

ڈاکٹر مالک بلوچ یہاں وزیر اعلی بنا تو انہوں نے اپنے ضلع تربت، نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنا تو انہوں نے اپنے ضلع خضدار، قدوس بزنجو وزیراعلی بنا تو انہوں ضلع آوارن، ڈاکٹر حامد اچکزئی سینئر وزیر بنا تو انہوں نے اپنے ضلع قلعہ عبد اللہ، مولانا واسع سینئر بنا تو انہوں نے اپنے ضلع قلعہ سیف اللہ، اس پورے درخت کو توڑ کر لے جانا چاہا۔ اگر اس درخت سے حاصل ہونے والے فروٹ کو صحیح انداز میں تقسیم کیا جائے تو پورا صوبہ کیا، بلکہ پورا ملک اس کا فروٹ کھا سکتا ہے، مگر اس حرص کا کیا جائے، جس نے کہیں کا نہیں چھوڑا، اور ہم ایسی قابلِ رحم صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ !

بلوچستان میں جو شخص بھی وزیر یا ایم پی اے بنا اس نے ہمیشہ تین ایجنڈوں پر کام کیا۔

پہلے زیادہ سے زیادہ ڈویلپمنٹ فنڈز اپنے علاقے کے لئے حاصل کرنا جس کا و ہ خود ٹھیکہ لے یا اپنے بھانجے بھتیجے کے نام پر ٹھیکہ لے۔ دوسرا ایجنڈا منافع بخش پوسٹوں پر من پسند افراد کو تعینات کرکے ان سے پیسے لے۔ جبکہ تیسرا ایجنڈا اپنے محکمے میں زیادہ سے زیادہ غیر ضروری اسامیاں پیدا کرے اور ان پر اپنے علاقے کے لوگوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع کی نوکریاں فروخت کرے۔

یہاں پر محکمے کے انتظامی سربراہ سیکریٹری کی جانب سے بھرتیوں کے عمل میں کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی یا وزیر کو یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ہمارا اپنا صوبہ ہے، ہم اس پے ظلم کرنے جا رہے ہیں بلکہ بطور آلہ کار سیکریٹری نے مدد کی اور اپنے آبائی گاؤں و ضلع کی پوسٹیں بھی بڑھا دیں فنانس میں منظوری کے لئے گیا تو وزیر فنانس اور سیکریٹری فنانس کے علاقوں کی پوسٹیں بھی بڑھانی پڑیں۔ منظوری کی فائل وزیراعلی کے پاس گئی تو وزیراعلیٰ اوراس کے پرنسپل سیکرٹری کے حلقوں کی پوسٹیں ان کی توقعات سے بھی زیادہ بڑھا دی گئیں تھیں اور یوں منظوری دینا ان کی مجبوری بن گئی۔ اور صوبہ ایک منڈی بن گیا جہاں حکومتی معاملات نے آڑھت کی شکل اختیار کر لی اور سودے دھڑیوں کی شکل میں ہونے لگے۔

شاید اب وزیراعظم عمران خان کے نزدیک بھی کچھ بلوچستان کے ساتھ ایسا کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ملک کی معیشت کو بلوچستان کی معیشت جیسی کمزور بنانے پر تلے ہوئے ہیں عوام معیشت بہتر بنانے میں ریاست کے مددگار ہوتے ہیں جب کہ ہم ان کو معیشت پر بوجھ بنانے پر تلے ہوئے ہیں مرغی اور انڈا جیسے منصوبے ضرور متعارف کراے جائیں لیکن صحیح پلاننگ کے ساتھ اور وزیراعظم کی سطح پر نہیں۔ ورنہ بلوچستان کا سالانہ اربوں روپے کا بجٹ لائیو سٹاک کے محکمے میں آپ کے سامنے ہے۔ جہاں صرف 6830 لوگوں کی عیاشی کے لے سرکاری خزانے سے رقم تو ہے لیکن حرام ہے کہ صوبے کو ایک انڈا بھی ملا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).