سی پیک، چین اور ایشیا


صوبہ بلوچستان کا شہر گوادر تقریبا ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تین اطراف سے سمند میں گھرا، ہمہ وقت چلتی ٹھنڈی ہوائیں، خوبصورتی و دلفریبی اپنے دامن میں لئے اور بلند و بالا مٹی کی چٹانوں کے حصار میں بسے اس شہر سے وابستہ لوگوں کی زیادہ تر گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہے۔ گوادر کراچی کے مغرب میں 460 کلومیٹر اور پاکستان کی مشرقی سرحد پر واقع ایران سے 75 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ گوادر بندر گاہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں چین کے تعاون سے قائم ہوئی یہ وہ واحد بندر گاہ ہے جہاں بڑے سے بڑا جہاز کنارے تک پہنچ سکتا ہے۔

منصوبہ سازوں کے مطابق اس بند گاہ پر ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد 200 سے 400 ملین ٹن سالانہ سامان کی نقل و حرکت عمل میں آئے گی۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا منصوبہ اپریل 2015 ء میں چھیالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم کی لاگت سے شروع ہوا۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ سی پیک ایشیاء کا سب سے بڑا معاشی پروجیکٹ ہے یہ ہزاروں کلو میٹر ریلویز، موٹرویز اور بندرگاہوں کا بڑا ایک مربوط نظام ہے۔ ایران کی چابہار بندرگاہ اور پاکستان کی گوادر بندر گاہ کا فاصلہ 170 کلو میٹر ہے پاکستان کی گوادر بندر گاہ اور ایران کی چابہار بندر گاہ خطے کے چار ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اگر خطے میں اقتصادی طور پر بالادست ہونے والے ممالک کی دوڑ پر نظر دوڑائی جائے توبھارت کے لئے ایران اور افغانستان، مشرق وسطی کی تجارتی منڈیوں تک رسائی میں جغرافیائی اعتبار سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان تمام علاقوں تک زمینی راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں۔

بھارت نے اسی وجہ سے اپنی ملکی سرحد سے نو سو کلو میٹر کی دوری پر واقع چابہار بندر گاہ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ یہ بندر گاہ بھارت کا ان منڈیوں تک رسائی کا دیرینہ مسئلہ حل کر دیتی ہے۔ جبکہ چین نے پاکستان میں بننے والی گوادر بندرگاہ میں 54 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے یہ منصوبہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے یہ بندر گاہ بیجنگ کے لئے عالمی منڈیوں تک رسائی کے لئے اہم ذریعہ ہو گی۔

اب تک چینی مصنوعات کو دنیا کی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے چینی بحری جہازوں کو طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن اب چین کو گوادر بندر گاہ سے اپنی مصنوعات عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے بارہ ہزار کلو میٹر کی بجائے صرف تین ہزار کلو میٹر سفر طے کرنا پڑے گا۔ گوادر دنیا کی سب سے گہری بندر گاہ ہے مصر کی نہر سوئز سے پورے یورپ کے لئے روزانہ چالیس لاکھ بیرل تیل جاتا ہے جبکہ گوادر سے صرف چین کے لئے روزانہ ساٹھ لاکھ بیرل تیل جایا کرے گا اور چین کو سالانہ بیس ارب ڈالر کی بچت ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مد میں سالانہ پانچ ارب ڈالر ملیں گے اور سب سے بڑھ کر چین امریکہ اور بھارت کی محتاجی سے نکل آئے گا جو اس وقت چین جانے والے سمندری راستوں کو کنٹرول کر رہے ہیں اسی وجہ سے امریکہ اور بھارت کو سی پیک منصوبہ کے بننے سے پریشانی لا حق ہے۔

ایشیاء اور افریقہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جبکہ یورپ دنیا کی کل آبادی کا صرف تیرہ فیصد ہے روس اپنی تجارت اس خطے میں کرنے کا خواہاں ہے لیکن روس کے پاس اپنی اس خطے میں تجارت کرنے کے لئے دو ہی راستے ہیں ایک ایران کی چابہار بندرگاہ اور دوسرا گوادر کا راستہ ہے جو دنیا کی تیسری بڑی بندرگاہ ہے۔ حالات کی دستک بتا رہی ہے سنڑل ایشیاء کی ریاستیں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ رکھتی ہیں جن کو وہ ان ممالک تک پہنچانا چاہتی ہیں جس کے باعث روس اور وسطی ایشیائی ممالک گوادر کی بدولت بہت جلد پاکستان پر انحصار کریں گے۔

ایک اندازے کے مطابق اسی ہزار ٹرک روزانہ چین، روس اور سنڑل ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی جانب آمدورفت کریں گے جس سے صرف ٹول پلازوں کی مد میں پاکستان کو سالانہ بیس سے پچیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو جو اسٹرٹیجک پوزیش دی ہے وہ اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان پوری دنیا کے تیل، گیس، صنعتی و معدنی پیداوار اور منڈیوں کے درمیان ایک برج بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بننے والے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو روکنے کے لئے عالمی دشمن قوتیں متحرک ہیں کہ ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ چین خود ہی اس منصوبہ سے دستبردار ہو جائے اور اس مقصد کے لئے سیاستدانوں، میڈیا، قوم پرست جماعتوں اور داعش جیسے دہشتگردوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

کراچی میں چینی کونسل خانے پر دہشتگردوں کا حملہ، 2004 ء میں عبداللہ محسود کا امریکہ سے رہا ہوتے ہی گوادر پر حملہ کرنا، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا گرفتار ہونے کے بعد اس منصوبے کو سبو تاژ کرنے کا اعتراف کرنا، اصل مقصد صرف پاک چین اقتصادی راہداری نقصان پہنچانا اور روکنا ہے تاکہ دونوں ممالک کو جو معاشی اور اقتصادی فوائد حاصل ہونا ہیں ان سے محروم رکھا جائے شواہد بتاتے ہیں دشمن تما م تر ناکامیوں کے بعد آخری حملوں پر آگیا ہے۔

بھارت اپنے مکروہ چہرے اور اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتا ہے پاکستان کو اس وقت معشیت کی شدید مشکلات کا سامنا ہے بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ مختلف محاذوں پر پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کرے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد بار اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سمیت مختلف فورمز پر زہر افشانی کی لیکن پاکستان کے دوست ملک چین نے اپنی ویٹو پاور کے ذریعے بھارتی سازشوں کو ناکام بنایا۔

وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین کے دوران سی پیک منصوبہ پر مزید پیشرفت اور دونوں ممالک کا اپنی کرنسی کے استعمال کا اعادہ کرنا پاک چین تعلقات میں گذشتہ پچاس سالوں میں اب تک سب سے اہم تاریخی سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب اگر گوادر اور سی پیک منصوبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو جہاں اس منصوبے سے غربت و بیروزگاری میں کمی واقع ہوگی وہیں یہ معاشی پروجیکٹ دنیا کے ایسے منصوبوں میں شمار ہوگا جو ایک ایڈیشن کا باعث بنے خطے میں جن ممالک کی اقتصادی قوت میں اضافہ ہوا ہے ان میں کمی واقع نہیں ہوگی ہاں البتہ گوادر اپنی جگہ خود بنائے گا۔

سی پیک منصوبہ کسی ملک کی اقتصادی شناخت تبدیل کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ ایسے منصوبوں میں شمار ہو گا جیسے شنگھائی، دبئی، لندن، نیویارک اور ٹوکیو ہیں۔ گوادر بندرگاہ مستقبل میں پاکستان کی تجارت اور کارگو کی سرگرمیوں میں مرکزی کردار کی حامل ہو گی جس سے پاکستان کی آمدن کے درپیش مسائل میں کمی واقع ہوگی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جہاں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ابھرتے سورج کی کرنوں کو تقویت بخش رہا ہے وہیں یہ منصوبہ دشمن قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہا لیکن دشمن کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے بم دھماکوں، خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان کی سر زمین پر دہشت و وحشت کا بیج بونے کے باوجود پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دشمن کے تمام تر مذموم عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).