پاناما کیس اور گوئبلز کے فلسفے پر کھڑا نیا پاکستان


وزیراعظم عمران خان کا کمال یہ ہے کہ وہ کوئی بات چھپا نہیں سکتے۔ جو دل میں آتا ہے سیاسی عواقب کی پرواہ کیے بغیر منہ پر دے مارتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے آج آبادی پر قابوپانے کے لئے منعقد ہونے والے سمپوزیم میں چیف جسٹس کو سامنے بٹھا کر بتا دیا ہے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے ہی دراصل ’نئے پاکستان‘ کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تقریر میں ملک کے وزیر اعظم نے آبادی پر کنٹرول کے لئے حکومتی پالیسی کے سوا ہر موضوع پر بات کی۔

یونان سے لے کر رومن دور تک کی تاریخ بیان کی اور پاکستان کی تاریخ میں کیڑے نکالتے ہوئے واضح کیا کہ ملک کے آمر جمہوریت پسند ہونے کا ڈھونگ کرتے رہے ہیں جبکہ جمہوری لیڈروں نے آمر بننے کی کوشش کی۔ اسی لئے وہ اب مدینہ کی ریاست قائم کرنے کا نسخہ سامنے لا رہے ہیں تاکہ اس دور کی طرح خلیفہ قاضی کی عدالت میں پیش ہو اور انصاف کو قبول کرے۔ خلیفہ کا منصب قائم ہونے تک البتہ قاضی اپنی باری آنے کا انتظار کریں۔

باتوں اور دعوؤں سے اگر کسی ملک کا نظام ٹھیک ہوسکتا ہو تو پاکستان اس معاملے میں عمران خان سے پہلے بھی خود کفیل تھا لیکن ان کے سیاست میں آنے اور حکومت میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد خود ستائی کے علاوہ دوسروں کے ہر کام میں کیڑے نکال کر عمران خان اور ان کے تربیت یافتہ ہرکارے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانے میں تقریباً کامیاب ہوچکے ہیں جب نہ صرف بیرون ملک کام کرنے والے ستر اسّی لاکھ پاکستانی وطن واپس آکر خوشحال اور کامیاب زندگی گزاریں گے بلکہ اتنی ہی تعداد میں دوسرے ملکوں کے مجبور اور ضرورت مند لوگ بھی پاکستان آکر یہاں کی معاشی ترقی یعنی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے دنیا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں کے باہر قطاریں لگائے کھڑے ہوں گے۔

تاہم فی الوقت یہ ’سچائیاں‘ چونکہ جھوٹے سچے خواب ہی کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے عمران خان بھی مدینہ ریاست کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ڈالر اینٹھنے کا کوئی نہ کوئی حیلہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ڈیم بنانے کے نام پر ان کی حب الوطنی کو للکارا جاتا ہے اور کبھی ترسیلات میں سہولتیں دینے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو یہ خواب دکھایا جاتا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم 20 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 30 ارب ڈالر ہوجائیں گی۔ اس طرح قومی معیشت کو ہر سال دس ارب ڈالر کے جس خسارہ کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے، اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ملک اپنے اخراجات میں خود کفیل ہو گا۔

یہ دعوے بھی دراصل عمران خان کی صاف گوئی کا شاہکار ہی ہیں کیوں کہ وہ پہلے دن سے یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت دوست ملکوں یا آئی ایم ایف سے قرضوں کی تگ و دو تو سابقہ حکومتوں کی بد اعتدالیوں کی وجہ سے کرتی رہی ہے۔ یہ حکومت تو بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ کرکے قومی معاشی مسائل کو حل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی تو وہ موجودہ حکومت کے دور میں منی لانڈرنگ کو روک کر پوری کرلی جائے گی۔

کیوں کہ یہ بھی ہمارے وزیراعظم کی سیاسی ڈاکٹرائن ہے کہ منی لانڈرنگ دراصل بدعنوان سیاست دانوں کی طرف سے اپنی ناجائز دولت بیرون ملک بھجوانے کے نتیجے میں معرض وجود میں آتی رہی ہے۔ اب جبکہ ملک کو ایک پارسا وزیر اعظم اور نہایت نیکو کار کابینہ میسر آچکی ہے تو منی لانڈرنگ کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا۔ بس قباحت یہ ہے کہ عالمی ادارے اور امریکی صدر ہمارے وزیر اعظم کے عزم اور دیانت کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی بجائے اسے بلیک لسٹ میں ڈالنے کا انتظار کر رہا ہے۔ اور آئی ایم ایف قلیل المدت قرضہ دینے کے لئے بھی نت نئی شرائط منوانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسد عمر اسٹیٹ بنک کے ساتھ مل کر ان شرائط کو پورا کرنے کی جد و جہد میں لگے ہیں تاکہ ان کی وزارت بھی بچی رہے اور پارٹی میں عقاب کی نگاہیں رکھنے والے سیاسی مخالفین کے ہاتھوں عزت بھی محفوظ رہے۔

عمران خان کے اقتصادی پروگرام میں قومی پیداوار میں اضافہ کرنے کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ ایماندار وزیراعظم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مملکت کے معاملات ازخود طے ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ترسیلات میں اضافہ ہوجائے گا اور منی لانڈرنگ رکنے سے قومی وسائل ملک کے اندر ہی موجود رہیں گے جو اس حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کی تکمیل میں کام آسکیں گے۔ اس نعرے بازی میں البتہ یہ سمجھنے کا وقت نکالنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ قومی پیداوار میں اضافہ کیے بغیر وہ وسائل کہاں سے دستیاب ہوں گے جنہیں منی لانڈرنگ سے محفوظ رکھ کر دیانت دار وزیر اعظم غریبوں کے مکان بنانے اور روزگار دینے میں صرف کریں گے۔

سچ بولنے کی لگن میں وزیر اعظم یہ سمجھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ ان کے اقوال حقیقت کا روپ کیسے دھاریں گے۔ مثلاً جب ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول ہی نہیں ہوگا، تجارتی شعبہ زوال پذیر ہوگا، مارکیٹ کا اعتماد دگرگوں رہے گا تو ان ایک کروڑ لوگوں کے لئے روزگار کہاں اور کیسے فراہم کیا جائے گا جو عمران خان کے وعدے کے انتظار میں ’اپائنٹمنٹ لیٹر‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ یا وہ انسانی وسائل کے ارتقا کے لئے سرمایہ کاری کا جو خواب دکھاتے ہیں خواہ وہ تعلیم کے شعبہ میں ہو، صحت کی سہولتوں کے لئے ہو یا تحقیق و جستجو کے میدان میں امکانات تلاش کرنے کا کام ہو، اس کے لئے مالی وسائل کہاں سے فراہمکیے جائیں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali