ایک گناہ اور سہی!


ایک گناہ اور سہی، ماچس ہے یار۔ گناہ کرنے کو دل چاہ رہا ہے پیسے ہیں جیب میں، اب اس قسم کے مکالمے سننے کو ملیں گے۔ سگریٹ تنہائی کی ساتھی، پرشانیوں کا حل، دنیا کے غموں کو دھوئیں میں اڑانے کا آسان ذریعہ، لوجی سگریٹ کی قیمت پر تو ٹیکس بڑھا ہی تھا اب سگریٹ پینے پر ”گناہ ٹیکس“ لاگو ہوگا۔ خبر ہے ملک میں سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے اسنوکرز پر ”گناہ ٹیکس“ عائد کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ گناہ ٹیکس سے جمع شدہ آمدن شعبہ صحت پر خرچ کی جائے گی۔

سگریٹ نوشی گناہ ہوا، اب صغیرہ ہے یا کبیرہ لیکن گناہ قرار دے کر اس گناہ پر ٹیکس لگے گا، سگریٹ پینے والوں کی تو گئی بھینس پانی میں، سگریٹ خریدنے پر ٹیکس دیں، سگریٹ پینے پر ٹیکس دیں، کچھ دن بعد آلودگی پھیلانے کے جرم میں سگریٹ کے دھویں کے مرغولے بنانے پر بھی ٹیکس لگے گا۔ سگریٹ پینا جرم ہوا وہ بھی ایسا جرم جس میں سراسر سگریٹ پینے والے کا ہی نقصان ہوتا ہے، اب تو یہ گناہ بھی قرار دیا جائے گا، سگریٹ کے عادی چھپ چھپ کر سگریٹ پئیں گے اور ڈھونڈنے والے انھیں پکڑ ہی لیں گے۔ سگریٹ نوش بے چارہ جائے تو جائے کہاں

دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

ایک بے چاری سگریٹ عتاب کی ماری ہمیشہ زد میں رہتی ہے، نہ تو نسوار پہ ٹیکس لگتا ہے، نہ ہیروئین پہ ٹیکس اور نہ ہی کوکین پہ ٹیکس، حد تو یہ ہے بیڑی کی بھی پکڑ نہیں، پکڑی جاتی ہے تو سگریٹ جو عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ اب تو کھلے عام سگریٹ نوشی کا گناہ کریں گے اور گناہ ٹیکس دے کر چھوٹ جائیں گے لیکن ان کا کیا جو رات کی تاریکی میں کوکین کا نشہ کرتے ہیں، ان کی بھی پکڑ ہے یا نہیں ویسے بھی بقول شاعر

اس عمر میں ملتے ہیں کب یار نشے جیسے
دارو کی طرح تیکھے، کوکین طبیعت کے

وہ بھی ہیں جو چلتے پھرتے نسوار کی چٹکی مسوڑھوں میں دباتے ہیں، کچھ تمباکو والا پان کھا کر سرور حاصل کرتے ہیں شاید یہ گناہ نہ ہو، گناہ ہے تو سگریٹ پینا، جو چین اسموکر وہ یہ شعر پڑھ کر دل کو تسلی دے لیں گے

مدتیں ہوگئیں گناہ کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے

سگریٹ نوشی مضر صحت ہے مانتے ہیں صحت خراب ہوتی ہے لیکن صحت بنانے کے لیے کون سی اشیاء موجود ہیں، کون سی چیز خالص ہے، کس چیز میں ملاوٹ نہیں کیا محکمہء صحت کو ملاوٹ کا گناہ نظر نہیں آتا، حد تو یہ ہے کہ دواؤں میں ملاوٹ ہے، دوائیں خالص نہیں مریض علاج کروائے تو کیا کروائے ان دواؤں میں ملاوٹ کے گناہ پر کوئی ٹیکس کوئی سزا نہیں، ان سے تو ہزاروں زندگیاں ختم ہو جاتیں ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کیا یہ گناہ نہیں، صاف پانی میسر نہیں پینے کو، دودھ میں پانی ملاکر بیچنا یہ زیادہ بڑے گناہ ہیں۔ ان پر گناہ ٹیکس لاگو کریں۔ ایک سگریٹ پہ لے دے کے ٹیکس کا غصہ اتارتے ہیں، ان پریشانیوں الجھنوں اور مشکلوں کا سد باب نہیں کرتے جن کی وجہ سے ایک انسان سگریٹ نوشی اختیار کرتا ہے۔

اکثر لکھنے پڑھنے والے لوگ سگریٹ نوشی، بے تحاشا کرتے ہیں، انھیں سب معلوم ہوتا ہے لیکن سگریٹ نوشی عادت بنالی ہے کچھ دردِ دل، غم ِ جہاں مٹانے کو سگریٹ پیتے ہیں جو گناہ قرار دے دیا گیا، ناکام عاشق کہتا ہے جہاں اتنے گناہ کیت وہاں اک گناہ اور سہی،

اڑ رہا ہے چار سو دل کا غبار
اور فضاؤں میں دھواں موجود ہے

سگریٹ کچھ لوگ علاج کے لیے بھی پیتے ہیں، پیٹ میں گیس کا گولکا بنتا ہے تو سگریٹ پی کر اس کا علاج کرتے ہیں۔ کچھ دل جلے اس سگریٹ کو اپنا جگر جلانے، غم بھلانے کے لیے پیتے ہیں،

مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ

کاش اتنی آسانیاں پیدا ہوجائیں کہ کوئی اپنی پریشانیوں، اپنے غم غلط کرنے کو سگریٹ نہ پیئے، کسی کو غمِ روزگار نہ ہو، کسی کو غم ِ دوراں نہ ہو، کوئی غم ِ جاناں کا اسیر نہ ہو، صبح اٹھیں تو فکرِ زمانہ ساتھ نہ ہو خوشحالی ہو تو کون اسے ہاتھ لگائے گا،

دھواں سگریٹ کا، بوتل کا نشہ سب دشمنِ جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).