سنجیدہ قسم کے چٹکلے اور گناہ ٹیکس


ہمارے ملک کی بہت سی خاص باتوں میں ایک بات یہ بھی ہے کہ یہاں آئے روز کوئی نہ کوئی سنجیدہ چٹکلہ چھوٹتا رہتا ہے۔ کبھی سیاسی و مذہبی ممبروں پر تو کبھی قانون انصاف کے ترازو پر۔ اور پھر ترسے عوام کے اگلے سات دن ایسے سنجیدہ چٹکلوں پر بات چیت اور میمیز بنانے میں گزر جاتے ہیں۔ اس طرح حالات کی ماری اس عوام کا وقت نان ایشوز پر مذید چٹکلے چھوڑتے اچھا کٹ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایسے سنجیدہ چٹکلوں کے جہاں نقصانات ہیں وہاں فائدے بھی ہیں۔

آج کل جو سنجیدہ چٹکلے مارکیٹ میں زیادہ ہٹ ہیں ان میں اکثریت کے جملہِ حقوق بحق سرکار مولانا خادم حسین رضوی صاحب کے آستانہ آلیہ محفوظ ہیں۔ (اللہ مولانا کی مشکلیں آسان فرمائے ) ۔ حضرت عالی مرتبت کے ان غیر سیاسی مگر روحانی قسم کے سنجیدہ چٹکلوں میں سے کچھ تو اس قوم کے زیرو میٹر حافظے (جو کبھی استعمال نہیں ہوتا) میں سنہرے حروف کے ساتھ لوح سرخ پر محفوظ کیے جا چکے ہیں۔

جیسا کہ پین دی سری۔ ویسے یہ پین کے بجائے بھرا یا بکرے دی سری بھی ہو سکتی تھی مگر جو شہرت لازوال اس پین دی سری کو ملی ہے وہ دائمی و ابدی ہے اور اس سلسلے میں بڑے بڑے مفکروں کے اقوال اس کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔ کیا بچے کیا، کیا جوان اور کیابوڑھے۔ سبھی اس کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔ تھوڑی طبیت جلال میں آئی نہیں کہ ”پین دی سری“ اور دشمن دھول چاٹنے پہ مجبور۔ بھئی میں تو کہتی ہوں اس کو ہماری قومی گالی بنا دینا چاہیے۔ ہاں بھئی جب قومی جانور ہو سکتا ہے تو گالی کیوں نہیں جی؟ (مولانا خادم رضوی کے مطابق انہوں نے کبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں، گو کہ وہ دشنام طرازی کا دفاع کرتے ہیں : مدیر)

مولانا کے روحانی چٹکلوں کی فہرست بہت لمبی ہے جیسے کہ ؛
”اوئے گردیو! تساں ٹھیک ہونا ایں یا کراواں ڈیلسز؟ “ (اوئے گردو، ٹھیک ہونا ہے یا ڈائلیسس کروا دوں )

مزید لیجیے ؛
”جن ادھی راتیں وہڈیاں وہڈیاں بلیاں بن کے آ گئے۔ آکھیاں ایہہ کوئی ٹیم اے ملاقات دا“ (جن آدھی رات کو بڑی بڑی بلیاں بن کر آ گئے۔ کہا کہ یہ بھی کوئی وقت ہے ملاقات کا)

اور یہ والا؛

”قرضہ لاہن دا سنہری نسخہ میرے کولوں لئے لؤ اوہ وی مفت چہ۔ نسخہ ایہہ ہے کہ ایہناں ملکاں نوں آکھوں بھئی گل ایہہ ہئے کہ سود ساہڈے مذہب چہ حرام ایں۔ لہذا صرف اصل رقم دیساں دے اوہ وی اودوں جدوں ساہڈے کول ہوئی۔ جے من گئے تے ٹھیک نہی تے آیا جے غوری“ (قرض اتارنے کا سنہری نسخہ مجھ سے مفت لے لو۔ نسخہ یہ ہے کہ ان ملکوں سے کہا جائے کہ بات یہ ہے بھئی کہ سود ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ لہذا صرف اصل رقم دیں گے اور وہ بھی جب ہمارے پاس ہوئی۔ اگر مان گئے تو ٹھیک نہیں تو آیا ہے غوری)

اور پھر شدت روحانیت و عقیدت سے جھومتے مجھ جیسے مرید۔
فیصلہ آپ خود کر لیجے۔

کچھ چٹکلے یہاں خاموش رہ کر چھوڑے جاتے ہیں۔ اور اس گروہ کی امامت ہمارے عظیم المرتبت امام الصم بکم صدر (سابق) ممنون حسین ہیں۔ عالی حضرت نہ صرف پیکر صبرو تسلیم و رضا ہیں بلکہ چپ سادھوؤں کے بھی امام ہیں۔ اسی لیے جب بھی خاموشی کو مادی شکل میں دکھانا ہو تو حضرت ممنون حسین۔

ارے ہاں! ایک سائیں سرکار بھی ہوتے تھے۔ جی ہاں حضرت پیر قائم علی شاہ۔ جہاں بھی کسی اور کا ”گٹا“ (ٹخنا) کسی دوسرے کے ”گوڈے“ (گھٹنے ) سے جوڑنا ہو سائیں سرکار کا جواب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ جب ہم لوگ سکول میں تھے تو عمران خان کی کرکٹ عروج پر تھی۔ تو یہ نوجوان کیسے ہوئے؟ عش عش۔ سائیں سرکار پر اس قوم کی میمیز اور تفریح کام و بڑھوتری اسی لئے جاری و ساری رہتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والے مظاہروں میں ایک تلوار والی سرکار بھی سامنے آئے ہیں۔ جو ہاتھ میں ننگی تلوار لئے رکشے کے ختنے کرتے نظر آئے۔ اور پھر ان سرکار نے جو شہرت جاوداں پائی مت پوچھیے۔ کبھی اس تلوار کے ساتھ عمران خان کی سکواڈ میں نظر آئے تو کبھی ملکہ برطانیہ کے پیچھے۔ کبھی جی ایٹ کے اجلاس میں میز پر کھڑے نظر آئے تو کبھی امریکی مجسمہ آزادی پر۔ اور تو اور یہ ریمپ پر دوشیزاؤں کے درمیان کیٹ واک کرتے بھی نظر آئے۔ یقینا خود بھی اس قدر شہرت ناگوار پر نادم و نالاں ہوں گے۔ مگر کیا کیجیے۔ دینے والا جب دیتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے۔ اور یہ تو پاکستان ہے۔ برداشت کیجیے۔

ہمارے بہت سی قومی بیماریوں میں سے ایک بیماری تشہیر، شہرت اور کریڈٹ بھی ہے۔ اور بحثیت قوم ہم سب اس بیماری میں گوڈے گوڈے چھوڑ ناکوں و ناک غرق ہیں۔ ہمارے لیڈر حضرات تو اس معاملے میں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور شہرت و کریڈٹ لیتے وقت موقع محل بھی نہیں دیکھتے۔ زلزلہ و سیلاب زدگان میں اشیا ضرورت کی تقسیم ہو یا کسی حادثے میں کٹے پھٹے زخمی لوگ۔ یہ وہاں جھٹ سے بتیسی نکالیں گے اور تصویر بنوا لیں گے۔ ہمارا لیڈر کیسا ہو؟ بتیسی سرکار جیسا ہو!

یہاں تک تو بات ٹھیک تھی مگر اب تو اس موئی نگوڑ ماری بیماری نے ہمارے قائدین کا یہ حال کر دیا ہے کہ کریڈٹ لیتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ کریڈٹ ہے کس چیز کا۔ یہی وجہ ہے کہ ساتھی کہ پیکٹس کو وزیر اعظم و چیف صاحب کی فوٹو چار چاند لگا رہی ہے۔ اور پورا سوشل میڈیا اس سے رنگا رنگ ہے۔ (بھلا ہو من چلوں کا جن کے وجود سے ہے تصویر فیس بک میں رنگ)

ان پیکٹس اور ان کر چھپی فوٹو کے مطابق برگزیدہ قسم کی ان دو ہستیوں کا ماننا ہے کہ آبادی میں اضافے اور ڈیم کے نہ تعمیر ہونے کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اللہ جانے یہ سچ ہے کہ جھوٹ۔

مگر ماضی میں بھی ٹوائلٹ سے لے کر بریانی کے ڈبوں پر مختلف قائدین کی تصویریں چھپنا عام روایت رہی ہے۔ شاید ان کا بھی ماننا ہوگا کہ عوام کو کھلانے سے لے کر اس کھانے کی آخری منزل تک ہم یہ عوام کے سہولت کار ہیں۔ کیونکہ کھانا اور نکالنا ہی زندگی ہے۔

ان ہی نگوڑ مارے چٹکلوں نے جو سلوک زبیدہ آپا اور فراز کے ساتھ کیا ہے ان کی روح عالم ارواح میں بھوک ہڑتال پر ہوگی۔

ویسے تو ہماری اس طرح کے چٹکلوں کی تاریخ بہت وسیع و سدا بہار ہے مگر بات چونکہ لمبی ہو رہی ہے تو آج کا تازہ ترین اور آخری چٹکلا ہے ”گناہ ٹیکس“۔ سگرٹ پینے پر گناہ ٹیکس۔

جی ہاں قارئین عالی جناب! بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ٹیکس دیجیے گناہ کیجے۔ لبرلزم دی پین دی سری۔ یہ رہا ہمارا دیسی لبرلزم کی طرف پہلا قدم۔ اور ولائتی لبرلزم کی چیخیں نکل گئیں۔ یعنی عین ممکن ہے کہ باقی گناہوں پر بھی ٹیکس لگا کے کھلی کھلی آزادی دے دی جائے۔ جانے ایسے ذہین و فطین دماغ آتے کہاں سے ہیں ہمارے حکومتی ایوانوں میں۔

ہمیں اس ٹیکس پر تو کچھ زیادہ اعتراض نہیں ہے مگر یہ نام۔ ”گناہ ٹیکس“ کچھ ہضم نہیں ہو رہا۔ مطلب اب کسی کے ابا سگریٹ پی رہے ہیں تو کسی کے پوچھنے پر کہ ابا کیا کر رہے ہیں؟ جواب آئے گا کہ ابا جی گناہ کر رہے ہیں یا گناہ کے مزے لے رہے ہیں۔ ؟

یا پھر سگریٹ پینے کی دعوت ایسے دیں گے بھائی لوگ۔ ”آؤ گناہ کریں“ یا پھر سگرہٹ خریدتے وقت کہا جائے گا۔
”ایک ڈبی گناہ دیجیے گا“۔

لا حول ولا قوہ۔

خیر یہ تو تھی بات ازراہے مذاق۔ اب آتے ہیں اس کے قانونی نقطہ نظر کی طرف۔ تو میرے ناقص علم کے مطابق سگریٹ پینا مذہبی طور پر حرام نہیں ہے تو پھر یہ گناہ کیسے ہوا؟ ہاں آپ اس ٹیکس کو کوئی اور نام دے لو بھائی۔ مگر ٹھہریے۔ یہاں ایک چیز بنیادی حقوق کے نام سے پائی جاتی ہے جس کو ہم ہندوستانی و پاکستانی کچھ زیادہ گھاس نہیں ڈالتے مگر پھر بھی یہ موجود تو ہے۔ اور ان ہی حقوق میں ایک چیز جینے کا حق و آزادی ہے۔ اور جوڈیشیل ایکٹیوذم کے تحت جائز و حلال چیزیں کھانا یا یا استعمال کرنا اس بندے کے اسی بنیادی حق میں آتا ہے۔ اور سیگرٹ پینا یا نہ پینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اب اس پر گناہ ٹیکس کی شکل میں کدغن کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ اور اگر سگریٹ حرام ہے تو بھائی بند کرو۔ یہ کیا بات ہوئی کہ گناہ کرو ٹیکس دو۔ اگر پاکستان کی جگہ کوئی بیرونی ملک ہوتا اور کوئی سر پھرا وکیل ہوتا تو کب کا چیلنج کر چکا ہوتا۔ مگر کیا کیجیے۔

مختصر یہ ہے کہ ٹیکس لگانا ہے تو طریقے سے لگا لیجیے۔ لگژری ٹیکس، کنزمپشن ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ یہ گناہ ٹیکس کا نام دے کر آپ جہاں قانونی و مذہبی طور پر اس ٹیکس اور معاملے کو ڈسپیوٹڈ بنا رہے ہیں وہاں پاکستانی معاشرے میں ایک نئے سنجیدہ قسم کے چٹکلے کا اضافپ بھی کر رہے ہیں۔ کہ یہ لو قوم قوم لگی رہو!

شازیہ چھینہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).