مرتا سسکتا کسان اور شوگر مل مافیا


پاکستان کی ذیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے،اور آبادی کا غالب حصہ زراعت پیشہ ہے۔ کسی زمانے میں ہمارے دیہات میں کپاس کی چاندی جیسی فصل اپنی بہار دکھاتی تھی۔ لیکن اس پر نت نئی حملہ آور بیماریوں اور کیڑوں نے اس کی کاشت کسانوں کے لئے مشکل بنا دی۔ تو کسانوں نے متبادل نقد آور فصل کے طور پر گنے کی کاشت شروع کر دی،تاکہ کچھ اضافی رقم کما سکیں۔ لیکن پاکستان کے طاقتور شوگر مل مافیا نے ایکا کر کے کسانوں کے لئے زندہ رہنا بھی محال کر دیا ہے۔

شوگر کین ایکٹ مجریہ 1951ء کے مطابق یکم اکتوبر سے 30 جون تک ملوں کے لئے کرشنگ سیزن ہے ،15 نومبر تک ہر حال میں شوگر ملیں کسانوں سے گنا خریدنے کی پابند ہیں اور 30 نومبر سے پہلے شوگر ملز نے کرشنگ شروع کرنا ہوتی ہے۔ اور گنے کی خریداری سے ایک ماہ پہلے گنے کی امدادی قیمت خرید کا اعلان کرنا بھی ان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن یہ سارے قوانین اور ضابطے صرف کتابوں کی حد تک ہیں۔ طاقتور شوگر مل مافیا کسی قانون کو خاطر میں نہی لاتا۔

تبدیلی سرکار نے یکم نومبر سے ملوں کو کرشنگ شروع کرنے کے احکامات دیے تھے، جو کہ شوگر ملز مالکان نے ہوا میں اڑا دیے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد گنے کی امدادی قیمت کے تعین کا اختیار بھی صوبائی حکومتوں کے پاس چلا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی زیادہ تر شوگر ملیں نون لیگ، پیپلز پارٹی،ق لیگ،اور اب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ملکیت ہیں۔ یہ سب لوگ اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ غریب کسانوں کا ایک بھی نمائیندہ اسمبلیوں میں نہی پہنچ سکتا۔ تو اس لئے یہ موٹے مگر مچھ اپنی مرضی کے قوانین بناتے ہیں۔
اوسطاً ایک شوگر مل تین ارب روپے سالانہ کماتی ہے۔ اس کے باوجود یہ شرفاء ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی اسمبلیوں سے منظور کرواتے اور اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔

اسمبلیوں میں ان کی ہی بات ہوتی ہے۔ بڑے بڑے اخبارات میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے بڑے بڑے اشتہارات روز شائع ہو رہے ہیں۔ کہ شوگر انڈسٹری بڑے بحرانوں کا شکار ہے۔ اس کے لئے سب سڈیز کی روکی ہوئی رقم ادا کی جائے۔ فاضل چینی بیرون ملک بھیجنے کی اجازت دی جائے۔ اور گنے کی امدادی قیمت مقرر نہ کی جائے بلکہ اسے کھلی مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ انہی اشتہاروں میں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر ہمارے یہ مطالبات نہ مانے گئے تو کسان تباہ ہو جائیں گے۔

آئیے دیکھتے ہیں ان خون آشام جونکوں نے غریب کاشتکاروں کا لہو پینے کے لئے کیسے کیسے جتن کر رکھے ہیں۔ فروری 2012 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی کابینہ نے ایک قانون بنایا کہ شوگر ملز کسانوں کو گنے کی رقم کی ادائیگی ،کچی رسید جس کو “سی پی آر ” کہا جاتا ہے کی بجائے قابل ادائیگی چیک کے ذریعے سے کرنے کی پابند ہونگی، نیز پکی رسید پر گنے کا وزن اور ریٹ بھی درج کرنا لازمی ہو گا۔  پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ قانون بنا تو لیا،لیکن کبھی اس کو نافذ نہ کروا سکی۔
2013ء میں نون لیگی سرکار نے اقتدار سنبھال لیا۔ شوگر مل مافیا نے وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت قانون کے ساتھ مل کر اس فیصلے کو چار سال فائلوں کے نیچے سے نکلنے نہی دیا۔ بالآخر نومبر 2017 کو وزارت صنعت و پیداوار کے ذریعے سے ایک خط وزیراعظم کو ارسال کیا گیا،کہ کیونکہ شوگر مل ایسوسی ایشن اور وزارت قانون اس فیصلے سے مطمئن نہیں۔ لہذاٰ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

جنوری 2018ء میں یہ خط وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے رو برو پیش کیا گیا۔ انہوں نے فیصلہ منسوخ تو نہی کیا،لیکن اس پر عملدرآمد کے احکامات بھی جاری نہیں کیے۔
اور اس طرح اس فیصلے کی فائل دوبارہ دبا دی گئی۔

یاد رہے ذیادہ تر شوگر ملیں خود ساختہ خادم اعلیٰ ،ان کے بھائی نام نہاد قائد جمہوریت اور فالودے والے زرداری صاحب کی ملکیت ہیں۔ پچھلے کئی سال تو پولیس کے ذریعے کاشتکاروں کو ڈنڈے مار مار کر ان کی ملوں کی طرف گنے کی ٹرالیاں ذبردستی موڑ کر لے جائی جاتی رہی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک پنجاب میں اور شاید سندھ میں بھی کرشنگ سیزن شروع نہیں ہو سکا۔
پچھلے کئی سال سے گنے کی امدادی قیمت 180 روپے فی من ہے۔ اس عرصے میں پیداواری اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ لیکن طاقتور شوگر ملز مافیا نے گنے کی امدادی قیمت میں اضافہ نہیں ہونے دیا۔ یہ ملک کی واحد انڈسٹری ہے جسے توانائی کے لئے بجلی و گیس یا تیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

یہ غریب کسانوں سے 180 روپے امدادی قیمت کی بجائے 140 یا 150 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدتے ہیں ۔ گنے سے لدی ٹرالیوں کو کئی کئی دن ملوں کے باہر کھڑا رکھا جاتا ہے ۔ تاکہ گنے سوکھنے سے ان کا وزن کم ہو جائے۔ اس کے بعد تولتے ہوئے کسانوں کے گنے سے %20 سے 25% تک وزن مختلف حیلوں سے کبھی بتا کر اور کبھی بتائے بغیر کاٹ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کو ملز کے دوازے پر پہنچا ہوا گنا تقریباً 100 روپے فی من تک مل جاتا ہے۔ اس میں سے رس نکال کر یہ چینی اور کئی دوسری ذیلی چیزیں جیسے الکحل،اور چپ بورڈ وغیرہ بھی بنا کر مہنگے داموں بیچ لیتے ہیں۔

گنے کے پھوک سے بجلی بنا کر اپنی ملیں بھی چلا لیتے ہیں اور فالتو بجلی بیچ بھی دیتے ہیں۔ گنے کا باقی پھوک یہ 240 روپے من کے حساب سے بیچ دیتے ہیں۔ شکر بنانے کے عمل میں باقی رہ جانے والا کمپوسٹ بھی یہ کھاد بنا کر کسانوں کو مہنگے داموں فروخت کر لیتے ہیں۔ اور اس تمام ظلم اور لوٹ مار سے بھی ان حریصوں کے پیٹ نہی بھرتے۔

کسانوں کو جو اوسطاً سو روپیہ فی من کے حساب سے انہوں نے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ وہ ایک کچی رسید کی شکل میں ایک کاغذ پکڑا دیتے ہیں۔ اور کسانوں کا پیسہ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور کوئی عدالت یا حکومت ان سے پیسہ نہی دلوا سکتی۔ نا کوئی قانون غریب کاشتکاروں کی مدد کرتا ہے۔ دو دو سال کسانوں کو ان کی ملوں کے باہر دھکے کھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اور ان غریبوں کو ان کا اپنا بچا کھچا پیسہ بھی نہیں ملتا۔ اپنی چینی کے سٹاک گروی رکھ کر بینکوں سے پیسہ لے کر وہ بھی دبا لیتے ہیں۔

اس کے بعد جب چینی بیچتے ہیں تو ایک اندازے کے مطابق سندھ میں 70% فیصد تک اور پنجاب میں 40% تک سٹاک بغیر سیلز ٹیکس دیے یہ مارکیٹ میں بیچ ڈالتے ہیں۔ اور اس سب استحصال،دھونس اور بے ایمانی کے بعد باجماعت گلے پھاڑ کر واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم مر رہے ہیں۔ ہمیں سبسڈی دی جائے۔ اور لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سےخود ہی سبسڈیز منظور کر کے اپنی جیبوں میں بھی ڈال لیتے ہیں۔

بھارت میں چھوٹے شوگر پلانٹ لگا کر بڑے مل مالکان کو اجارہ داری قائم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جبکہ یہاں اس مافیا نے چھوٹے شوگر پلانٹس پر مکمل پابندی لگوا رکھی ہے۔ اس ملک کا کسان مر رہا ہے۔ کاشتکاروں کی حالت بد سے بد تر ہو رہی ہے ۔

گنے کا کاشتکار پورا سال محنت کرتا ہے ۔ ایک ایکڑ پر 60 ہزار روپے سے زیادہ اس کا خرچ آتا ہے۔ پھر اسکی کٹائی اور کرایہ پر فی من 50 روپے تک اس کا خرچ آتا ہے۔ اگر اسے 240 روپے فی من ریٹ ملے تو کہیں جا کر اس کے گھر چند ہزار روپے آئیں گے۔ اب یہ حالت ہے کہ غریب کسان اپنے جانور، زیور اور درخت وغیرہ بیچ کر اپنی فصلیں پالتے ہیں۔ اور گنے کی فصل ان کی ملوں کے دروازے پر پہنچاتے ہیں۔ اور ان لٹیروں کے لالچ کا یہ عالم ہے کہ ان کے دوزخ نما پیٹ بھرنے کا نام ہی نہی لے رہے۔

آخر یہ کیسا بحران ہے کہ ان کی ملوں پر ملیں لگ رہی ہیں۔ اور فاقہ مست کسان روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ ان مفلوک الحال میلے کچیلے پھٹے ہوئے لباس والوں کے مدقوق چہرے کسی فالودے والے ٹھگ یا کوٹ والے نو سر باز نے غور سے دیکھے ہیں ؟ کیا یہ بلاول، مونس اور حمزے ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے؟ کیا یہ خون آشام جونکیں خدا کی پکڑ میں کبھی نہیں آئیں گی؟

یہ فراڈیے خدا سے ڈرتے کیوں نہیں؟ مظلوموں کی آہیں عرش تک ہلا ڈالتی ہیں۔ آخر کتنی دولت سے ان کا پیٹ بھرے گا؟ ان کے حرص کی حد کہاں جا کر ختم ہو گی؟ اور کیا عدالت عالیہ اور تبدیلی سرکار کو بھی کبھی یہ ظلم وستم نظر آئے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).