خواتین کے درد مند دانشوروں کے نام


\"shoaibخواتین کا استحصال کہیں بھی ہو کرنے والا کوئی بھی ہو ہر صورت قابل مذمت ہے۔ ایسی کئی تحریریں آئے دن نظروں سے گزرتی ہیں جو برابری کی سطح پر آگے بڑھنے والی خواتین کو اس معاشرے سے ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں، خوفزدہ کرتی ہیں، اسی مردانہ معاشرے سے جو ہم جیسے مردوں سے مل کر ہی بنا ہے۔ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم مردوں نے ہرگز سدھرنا نہیں تم اپنی خیریت چاہتی ہو تو خود کو قید کر لو، یہ سوچنا بھی مت کہ تمھاری اپنی بھی کوئی خوشی، تمھارے اپنے بھی کوئی خواب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تحریریں استحصال کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کی بجائے استحصال ذدہ خواتین کو ہی مزید بند ہونے، پیچھے ہٹ جانے کا راستہ دکھاتی ہیں۔

اگر استحصال سے بچنے کا حل یہ ہے کہ خود کو گھر میں قید کر لو، اپنی مرضی اپنی ہر خواہش، اپنے ہر خواب کو اپنے اندر اسی طرح دفنا دو جیسا کے اپنے جیتے جاگتے وجود کو تو یہ حل نہیں ہے۔ ان چند خواتین کا بین کرنے والے تو بہت دیکھے ہیں جو انہی جیسوں سے آلودہ معاشرے میں اپنی پہچان بنانے نکلیں تو رسوا کر دی گئیں لیکن ان لاکھوں کروڑوں کا نوحہ کون لکھے گا جو روز روز اپنے گھروں میں رسوا ہوتی ہیں، جو روٹی کپڑے کی خاطر اپنوں میں ہی روز جیتی روز مرتی ہیں؟ \”جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا\” کی طرز کے سبق کے سہارے اپنوں کے ہی طعنوں کو جھیلنے کی \”ہر گھر کی کہانی\” کون لکھے گا؟ روح اور جسم کے سودے کرنے والے تو شادیوں کے نام پر بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اپنوں کی ہی رسوائیوں سے تنگ آ کر پھندوں پر جھول جانے والیاں تو یہاں بھی موجود ہیں اور ان سے بڑھ کر ہیں جن چند کو بنیاد بنا کر ہمارے \”درد مند\” دانشور آواز اٹھانے کی بجائے مزید ڈرنے کے پیغام صدیوں سے سُنا رہے ہیں۔ جن کو گھروں سے ہی ہمیشہ خاموش رہنے کی سنہری تعلیمات دی گئی ہوں، وہ باہر کے مکروہ چہروں پہ اپنے لب سی لیں تو شکوہ کیا؟

مرنا ہی مقدر ہے تو روز روز کیوں اور ڈر ڈر کے کیوں؟ گھر ہو یا باہر استحصال کے خلاف، ظلم کے خلاف ڈرنا، پیچھے ہٹ جانے کا سبق حل نہیں، شکست ہے اور شکست خوردہ ذہنیت کا استحصال اندرون ہو یا بیرون خانہ ہر جگہ آسان ہے۔ ہمارے \”درد مند\” دانشور اگر ظلم و استحصال کے خلاف اپنی ماں بہن بیٹی کی مدد نہیں کر سکتے تو نہ سہی مگر ان کے پاؤں کے نیچے سے رہی سہی زمین تو نہ کھینچئے۔ ان کے لڑکھڑاتے قدموں میں سہارا نہیں بن سکتے تو ان کی راہوں میں مزید کانٹے تو نہ بچھائیے۔ خدارا! ان کو بھی اپنی طرح انسان سمجھئے، ان کو بھی اپنے خواب خود دیکھنے دیجئے، اپنی خوشیوں کے راستے خود متعین کرنے دیجئے اور اگر آپ ان کے ہمدرد ہیں تو اس راستے میں ان کا دست و بازو بنئے نہ کہ راستے کی مشکلوں سے خوفزدہ کر کے گھروں کو دفینہ خواہشوں اور آرزوؤں کے قبرستان بنا دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments