سعودی عرب میں امریکی پاسپورٹ کی برکتیں


ہم نے بس طوافِ کعبہ کا آغاز ہی کیا تھا کہ صحنِ حرم میں‌ موجود ایک  لال رومال والے مذہبی پولیس اہلکار کی نظر وارث بھائی کے گلے میں لٹکے ہوئے تعویذ پر پڑ گئی۔ آناً فاناً اس مطوع کا چہرہ اور رومال ایک رنگ کے ہو گئے۔ شدید سُرخ۔ وہ چیل کی طرح وارث بھائی کی طرف لپکا اور ان کے گلے سے تعویذ کھینچنے لگا ۔ ایک لمحے کو مجھے ایسا لگا کہ وہ تعویذ کے ساتھ وارث بھائی کی گردن بھی اتارنا چاہتا ہے۔ وارث بھائی نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے تعویذ اتارنے میں‌ اس کی مدد کی۔ لیکن تعویذ اترنے تک ڈور کی رگڑ کی وجہ سے وارث بھائی کی گردن پر مطوع کے رومال والی لالی آچکی تھی۔

میں نے وارث بھائی سےانگلش، میتھس اور فزکس پڑھی ہے۔ لیکن میں‌ انہیں بچپن سے وارث بھائی کہتا ہوں۔ مذہبی پولیس اہلکار کی بدتمیزی دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ بھی بدلنے لگا۔ اِس سے پہلے کہ میں‌ کوئی حرکت کرتا، وارث‌ بھائی نے مجھے آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا کہ ہم کعبے کے سامنے ہیں۔ اِس در سے مِلنے والے دین ہمیں در گزر کرنا سکھایا ہے۔ میں‌ نے جواب میں کہا کہ وہ تمیز سے بھی آپ کو تعویذ اتارنے کا کہہ سکتا تھا۔ وارث بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا ہم پاکستانی ہیں اور وہ سعودی۔ یہاں‌ ایسا ہوتا رہتا ہے۔  یہ بات غالبََا سن 2012 کی ہے۔

اگلے سال ہم پھر سعودی عرب میں تھے۔ مسجدِ نبوی میں‌ فجر ادا کرنے کے بعد ہم جنت البقیع چلے گئے۔ اس صبح‌ وہاں کافی بھیڑ تھی۔ میرے والد صاحب نے ہمیں سمجھایا ہوا ہے کہ جنت البقیع میں‌ جاؤ تو دل میں اللہ سے دعا کیا کرو۔ اگر ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا مانگی تو یہاں کی مذہبی پولیس شور شرابا کرے گی۔ اس بارگاہِ ناز میں‌ آواز بلند کرنے سے بھی اجتناب کرو کجا یہ کہ کسی سے جھگڑے کی نوبت آئے۔ اور اگر کوئی تنازع پیش آ بھی جائے تو ضبط کا اعلی ترین مظاہرہ ہم پر لازم ہے۔

روضۂ پاک پہ سب ضبطِ نَفَس کرتے ہیں

اِس گلستاں میں‌ دبے پائوں‌ ہَوا آتی ہے

(امیر مینائی)

لیکن وہ دن میری زندگی میں شرمندگی بن کر نکلا۔ ہم جنت البقیع میں ایک قطار میں چل رہے تھے۔ قطار کی رفتار کم ہوئی تو ہمارے قدم بھی ڈھیلے پڑ گئے۔ اس اثنا میں دو فوجی اہلکار بھاری بھرکم آواز میں  یلا حاجی یلا (چلو حاجی چلو) کہتے ہوئے قطار والوں کو آگے کی طرف دھکیلنے لگے۔ ان میں سے ایک زیادہ بد تمیز تھا۔ اس نے ایک زور دار دھکا میرے والد صاحب کو بھی رسید کر دیا۔ حالانکہ میرے والد صاحب بھی قطار کی رفتار سے چل ہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں اس فوجی کی طرف تیزی سے بڑھا لیکن کہہ صرف یہی سکا کہ “ہذا ابی” یعنی یہ میرے والد ہیں۔ اس کے بعد میری عربی ختم ہو گئی۔ میں‌ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے یہ کہنے کی کوشش کی کہ “بھائی آرام سے”۔ اس فوجی نے مجھے گھورا اور قطار میں آگے چلتے ہوئے میرے والد صاحب کے پاس جاکر انہیں‌ ایک اور دھکا رسید کیا۔ اس کے بعد اس نے میری طرف فاتحانہ انداز سے دیکھا۔  ایک پل کو میں بے سدھ سا ہو گیا کہ سعودی فوجی ہے اور میں سویلین پاکستانی۔ میں اس کے سامنے کیا کرسکتا ہوں۔ لیکن پھر اچانک میرے ذہن میں اقبال کے بتائے ہوئے مردِ مومن کے سارے تصورات یکجا ہو گئے۔ میں نے اس فوجی کو پوری قوت سے دونوں‌ بازوئوں سے پکڑ پیچھے کی طرف دھکیلا اور بس میں اپنی زندگی کا پہلا زناٹے دار طماچہ رسید کرنے والا ہی تھا کہ میری نظر بقیع کے دامن سے گزرتے ہوئے گنبدِ خضریٰ پر جا ٹھہری۔ یک آن مجھ پر کپکپی  سی طاری ہو گئی۔ جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اقبال نے یہ بھی تو کہا تھا:

خاکِ یثرب از دو عالم خوشتر است

ای خنک شہرے کہ آنجا دلبر است

(یثرب یعنی مدینہ منورہ کی سرزمیں دُنیا جہان کے ہر مقام سے زیادہ اچھی ہے اور وہ شہر کیوں نہ اچھا ہو جہاں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔)

کیا صحیح تھا کیا غلط، میں سب بھول گیا۔ میرے حواس کچھ بحال ہوئے تو میرے سامنے ایک بد حواس فوجی کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پہ بے یقینی کے آثار واضح تھے۔ جیسے اس کا ذہن یہ بات قبول نہیں کر رہا ہو کہ کوئی اس کے ساتھ یہ حرکت بھی کر سکتا ہے۔ اس نے میرا ایک بازو سختی سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے واکی ٹاکی پر عربی میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ اس وقت تک ہمارے آس پاس اچھاخاصا رش لگ چکا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ہمارے پاکستانی بھائی منہ کھولے مجھے تک رہے تھے۔ میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں‌ دوسرے فوجی سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ ہم زائرِ دربارِ رسول ہیں، تم لوگ ذرا تو اخلاقِ انسانی کا مظاہرہ کیا کرو۔ مجھے نہیں‌ پتہ اس فوجی کو میری بات کتنی سمجھ آئی۔ اسی اثنا میں کچھ ایرانی آگے بڑھے اور فوجی سے میرا ہاتھ چھڑانے کے لیے کوشاں ہوئے۔ فوجی ہاتھ چھوڑنے پہ راضی نہ تھا۔ ادھر ایرانی لوگ فارسی میں پتہ نہیں‌کیا کیا کہہ رہےتھے۔ جب ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں‌ تو دوسرے فوجی نے میرا ہاتھ چھڑایا اور ایرانیوں کو اشارے سے کہا کہ اسے لے جائو۔ اس نے واکی ٹاکی نکال کر عربی میں‌ کچھ کہا اور ساتھ ہی اپنے حواس باختہ فوجی کو  پیچھے کی طرف لے گیا۔ ہم آگے بڑھے تو کچھ ایرانی مجھے دھیرے دھیرے سے کچھ کہنے لگے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں‌ آیا وہ کیا کہہ رہے تھے۔ لیکن ان کے چہرے پہ خوشی دیدنی تھی۔ لیکن اس کے بعد جو چہرہ میں نے دیکھا وہ میرے والد صاحب کا تھا۔ میں ایک عظیم خطبہ سننے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔

اسی طرح ایک مرتبہ ہم مسجدِ نبوی کے اس مبارک حصے میں‌ تھے جسے قدمین شریفین کہتے ہیں۔ کوئی زائر اگر آنحضرت کے روضے کی رخ پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہاں موجود مطوع اسے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ میں نے ایسا کبھی نہیں‌کیا۔ اس دن ہوا کچھ یوں کہ میں نے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اپنا رخ جالی کی طرف کر لیا۔ میں وہ سبز جالی دیکھ ہی رہا تھا کہ سفید جبّے میں ملبوس ایک پاکستانی نے مجھ سے عربی لہجے والی اردو میں‌ کہا کہ “کعبہ کی طرف دیکھو”۔  اس طویل القامت شخص کی داڑھی اس کے شکم کے بوسے لے رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھے کعبہ رخ ہونے کا کیوں کہہ رہا۔ اس نے کہا کہ اللہ اس طرف ہے۔ میں‌ نے اسے کہہ دیا کہ “آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ آپ خدا کو ایک رخ پر قید کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ وہ تو ہر سمت موجود ہے۔” یہ سن کر وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ پہلے مجھ پہ چلانے لگا، پھر عقب میں موجود مطوع کو عربی میں کچھ کہنے لگا۔ وہ مطوع بھی شاید سوچ رہا ہوگا کہ یہ ہم سے بھی بڑا توحید پرست کہاں سے نمودار ہوا ہے۔ ہم تو روضے کی سمت دعا کرنے سے روکتے ہیں، یہ تو اس سمت دیکھنے سے ہی منع کر رہا ہے۔ اس مطوع نے مجھے خاصی تمیز سے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ لیکن جب میں نے اپنی بائیں جانب دیکھا تو مجھے والد صاحب کی پُر جلال آنکھیں نظر آئیں۔

قدمین شریفین سے باہر آئے تو والد صاحب نے کہا “تم جو اس سے پوچھ رہے تھے کیا اُس نے قرآن نے پڑھا ہے، تو پہلے یہ بتائو کہ تم نےقرآن پڑھ کے کیا سمجھا ہے؟” میں نے کوئی جواب نہیں‌ دیا۔ والد صاحب گویا ہوئے: “کیا تم نے سورہ حجرات نہیں پڑھی۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ نے اپنے حبیب کے سامنے آواز بلند کرنے بھی منع فرمایا ہے۔ اس بارگاہ میں بے ادبی کرنے والا کسی انعام کا مستحق نہیں۔” میں نے کہا ” لیکن میں نے تو اپنی آواز ذرا بلند نہیں کی۔” والد صاحب بولے: “پھر کسی کو آواز بلند کرنے کا موقع بھی فراہم نہ کرو۔ جاہلوں سے الجھنے کا کیا فائدہ۔ اگر اس شہر کی تعظیم و حرمت کا پاس نہیں رکھ سکتے تو یہاں مت آیا کرو۔” اس دن کے بعد مدینہ میں کسی نے مجھے دھکا دیا، زبردستی توحید سمجھانے کی کوشش کی یا پاکستانی ہونے کی وجہ سے حقارت سے دیکھا، میں نے اس شہرِ مقدس میں کوئی مزاحمت نہیں‌کی۔ ہم ہر سال روضۂ رسول کی زیارت کے لیے سفر کرتے رہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا:

نسبتِ یُمنِ قدم کر گئی یثرب کو حرم

وہ نہ ہوتے تو مدینے کی طرف جاتا کون

لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ میرے اندر نئی بےچینی پیدا ہوگئی۔ ایک مرتبہ میرے امریکہ میں مقیم تایا اور جنگ گروپ سے وابستہ سینیر صحافی عظیم میاں صاحب بھی ہمارے ساتھ مدینہ منورہ میں تھے۔ ایک رات تہجد سے پہلےوہ مسجدِ نبوی کے باہر کرسی ڈال کر بیٹھ گئے۔ ان کے سامنے سبز گنبد تھا اور وہ اپنی دھن میں اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک مذہبی پولیس اہلکار ان کے پاس آگیا۔ وہ مطوع اردو جانتا تھا۔ اس نے تبلیغ کا آغاز کیا تو تایا نے انگریزی بولنا شروع کردی۔ مطوع نے کہا کہ آپ پاکستانی لگ رہے ہیں‌۔ انگریزی کیوں بول رہے ہیں؟ تایا نے ہینڈ بیگ سے اپنا امریکی پاسپورٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ یہ مقدس دستاویز دیکھ کر وہ مطوع رفو چکر ہوگیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ تایا پھر سے اپنی عقیدت میں مصروف ہو گئے۔

اگر وارث بھائی کے گلے میں تعویذ کے ساتھ امریکی پاسپورٹ‌ بھی ہوتا تو شاید وہ بھی بہت سی آفات و بلیات سے محفوظ رہتے۔

نجم سہروردی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نجم سہروردی

نجم سہروردی دی نیوز انٹرنیشنل، ایکپریس ٹریبیون اور انگریزی چینل ٹریبیون 24/7 میں بطور رپورٹر، سب ایڈیٹر اور نیوز پروڈیوسر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان دنوں لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ''مذہب، قانون اور معاشرے" کے موضوع پر ماسٹرز کر رہے ہیں

najam-soharwardi has 7 posts and counting.See all posts by najam-soharwardi