مشرقی پاکستان اور دادی امّاں کی کھٹی میٹھی یادیں


پاکستان کی نئی نسل کی ایک اکثریت شاید یہ جانتی ہی نہ ہو کہ آج کا بنگلہ دیش کبھی اِس ملک کا حصّہ تھا۔ اس کا بازو تھا۔ اس کا مشرقی پاکستان تھا۔ ہماری جوانی میں یہ ہمارا پوربو پاکستان تھا۔ جہاں خوبصورت جزیرے تھے۔ حسین آبشاریں گنگناتی ندیاں اور دریا تھے۔ جس کے بے کراں بہتے پانیوں پر مانجھیوں کے نغمے تیرتے تھے۔ بانسری کی مدھر تانیں کانوں میں رس گھولتی تھیں۔ پوکھروں میں کنول کھلتے تھے ۔ ناریل اور سپاری کے جُھنڈوں تلے بانس کی جھونپڑیاں اور اُن پر لہراتی بل کھاتی رنگا رنگ بیلیں انہیں آرٹسٹک بناتی تھیں۔

اپنے دیس کے اس حصّے کو دیکھنے،جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی مجھے ڈھاکہ یونیورسٹی لے گئی۔ 1969اور1970میں وہاں تھی جہاں جانے کے لیے مجھے ویزا کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ دسمبر کا مہینہ ہے۔ دسمبر کا ظالم مہینہ جب میرے وطن کا وہ حصّہ ہم سے جدا ہوا۔ جس نے اُس کے ساتھ محبت کرنے والے ہم جیسے تمام لوگوں کو زار زار رلایا۔ تو آج جب میں دادی اور نانی بن گئی ہوں۔ اُس نانی اور دادی کی طرح جو اپنے پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو پاس بیٹھا کر دور دیسوں کی کہانیاں سناتی ہے۔ تومیں بھی آج آپ لوگوں کو کچھ یادیں،کچھ باتیں سنانا چاہتی ہوں۔
تو میرے پیارے بچو تب یہ آپ کی دادی اماں بڑی جوان تھی۔ کتابیں اور اخبار پڑھنے کی شوقین۔ اخباریں رسالے پڑھتے پڑھتے یہ جانی تھی کہ میرے پوربو پاکستان میں تو بڑا اضطراب ہے ، بڑی بے چینی ہے۔ لوگ ناخوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں اِس پچھمی پاکستان نے تو ہمیں کھا لیا ہے۔ تو اِس حقیقت کو جاننے کے لیے ایک دن باکمال لوگ اور لاجواب پرواز والی پی آئی ائے کے ٹرائیڈنٹ میں بیٹھی اورایک ہزار میل دور اپنے دیس میں چلی گئی۔ اس کی عظیم الشان درسگاہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخل ہوگئی۔ میں نے جلد ہی بنگالی بولنی بھی سیکھ لی تھی۔ ایک دن میری ایک سہیلی اور اس کی شادی شدہ بہن مجھے ڈھاکہ کلب لے گئیں۔ ریس کورس روڈ پر ڈھاکہ کلب اسی طرح چمکتا دمکتا اور ہنستا مسکراتا تھا جس طرح میرے لاہورکے مال روڈ پر جم خانہ ہنستا مسکراتا ہے۔ وہاں تنبولا کھیلتے لوگوں کو تھوڑی دیر دیکھا۔ کارڈ روم میں جھانکا اور پھراپنی واقف بنگالی فیملی جو بال روم میں ناچ ناچنے کے بعد پورٹیکو کے قریب کھڑی کچھ لوگوں سے محو گفتگو تھی کے پاس آئی۔

کاک ٹیل کا گلاس ہاتھ میں پکڑے مسز خان سے باتیں کرتا وہ لمبا تڑنگا نوجوان مجھ سے متعارف ہونے پر مخاطب ہوتا ہے۔

’’لاہور بہت خوبصورت جگہ ہے ،تاریخ میں پور پور ڈوبی ہوئی۔ میں وہاں گیا تھا۔ ‘‘

’’اچھا ۔ ‘‘ میں کہتی ہوں۔

’’میں نے واہگہ سیکٹر میں شہدا کی یادگاریں بھی دیکھی تھیں۔ ‘‘ میں نے مختصراً پھر’’اچھا‘‘ کہا ہے۔

’’بلوچ رجمنٹ کے نوجوانوں کا یہ پیغام پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے کہ عزیز ہم وطنو! جب آپ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جائیں تو ہمارے بارے میں یہ بتلانا نہ بھولیں کہ ہم نے اپنا آج آپ کے کل کے لئے قربان کر دیا ہے۔ ‘‘

اب میں دلچسپی اور اشتیاق سے اس کی طرف دیکھتی ہوں اور پوچھتی ہوں۔

’’ تو پھر آپ یہ پیغام لوگوں کو بتا رہے ہیں نا۔ ‘‘

’’اوہو نہیں۔ ‘‘ وہ کندھے اُچکاتا ہے۔ گردن سے کہیں نیچے پہنچے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ ’’میں دراصل اُس وقت بہت امیچیور تھا۔ پھر وہ میرے قریب آیا اور اس نے آہستگی سے کہا۔ ہمارا بلوچ رجمنٹ اور اس کے پیغام سے کیا واسطہ اور ناطہ وہ ہمارے لئے نہیں ویسٹ پاکستان کے لئے شہید ہوئی تھی۔ اورویسٹ پاکستان سے آزادی تو اب ہمارا نصب العین ہے۔ ‘‘

میں نے ہونٹوں کو سی لیا تھا۔ آنکھوں میں امنڈتے دکھ کو پرے کرتے ہولے ایک ٹک ماحول کے سحر کو دیکھا تھا۔ نیلگوں مدھم روشنی میں ڈوبے لاؤنج میں میزوں کے گرد بیٹھے خوش پوش لوگ پینے پلانے اور خوش گپوں میں مگن تھے۔ چاق و چوبند بیرے سروس کے لئے مستعد تھے۔ اندر ایک انجانے پراسرار سے گیت کی دُھن مدھم سروں میں بج رہی تھی۔

میں نے اس شاندارماحول سے جہاں اس وقت صرف قہقہے ہی سنائی دیتے تھے نظریں اٹھا لی ہیں۔ میری آنکھیں گیلی ہوگئی ہیں کہ میرے دل کا بس صرف اُن پر ہی ہے۔

٭٭٭     ٭٭٭

دوپہر تو خوبصورت تھی۔ نگھی اور میٹھی میٹھی سی دھوپ کی چادر میں لپٹی ہوئی ۔ ڈھاکہ کا آسمان بھی نکھرا ہوا تھا۔ نیلا کچور آسمان جس پر اڑتے ہوئے پی آئی ائے کا سبز ہلالی چاند تارے والا جہازابھی ابھی شورمچاتے گزرا تھا۔ میں اس وقت بہت اُداس تھی۔ رقیہ ہال (ڈھاکہ یونیورسٹی کا وویمن ہوسٹل) کے ایک تلہ کے ٹیرس پر کھڑی نیچے ہوسٹل کے لانوں اور سامنے سڑک پر بکھری ویرانی کو دیکھتی تھی۔ ڈھاکہ کی خوبصورت زمین اس وقت سہمی پڑی تھی۔
دراصل باہر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ بنگلہ اور اُردو پر جھگڑا ہوگیا ہے۔ مسلمان کا گلا مسلمان کاٹ رہا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے چار تلے سے میری ایک بہاری دوست نے آ کر مجھ سے دکھی لہجے میں کہا ہے۔
’’تم نے کچھ سنا ہے۔ شری متی جی اندرا گاندھی نے کہا ہے کہ جنت میں فرشتے کیوں لڑتے ہیں۔ ‘‘
میں نے رنج سے سر جھکا لیا ہے۔ تبھی دربان آکر مجھے پیغام دیتا ہے کہ آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔ میں نے حیرت سے اُسے بے اعتبار نظروں سے دیکھا اور پوچھا ہے۔ ’’مونو اس قیامت کے سمے کون ہوسکتا ہے۔ باہر تو کرفیو لگا ہوا ہے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے دستے سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔ ‘‘

’’آپا کوئی بارہ تیرہ سال کا لڑکا ہے۔‘‘ میں نیچے اُترتی ہوں۔ ریسپشن روم میں مجھے ایک منحنی سے وجود والا لڑکا دکھتا ہے جو میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔

’’میری ماں آپ کے ساتھ پڑھتی ہیں، مسز نیلما ابراہیم۔ انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ میں آپ کو یہ دے آؤں۔ معلوم نہیں ہال میں آپ کو کھانے کوکچھ ملا ہے یا نہیں؟‘‘

میں بڑے سے لفافے کو بغور دیکھتی ہوں۔ اُسے کھولتی ہوں۔ کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہیں اس میں ۔ میرے سینے میں جذبات کا طوفان اُمنڈا ہے ۔ باہر اور اندرکا یہ تفاوت میرے حساس ذہن کے ٹکڑے کر گیا ہے۔ میں نے امنڈتے آنسوؤں کو پی لیا ہے، پر میرا جی چاہا ہے کہ میں باہر نکلوں اور اس خاکی لفافے کو سارے ڈھاکے میں گھماآوں۔

٭٭٭   ٭٭٭

میں یہاں بیت المنیرہ میں اپنی کلاس فیلو حمیدہ پاپیا سے ملنے اور اتوار گزارنے اس کے ہاں آئی ہوں۔ اب گھر کے سامنے پریشان کھڑی اُس سائیکل رکشے والے کو دیکھ رہی ہوں جو مجھ سے اُلجھ رہا ہے اور غصے سے کہہ رہا ہے کہ وہ ڈیڑھ روپے سے ایک پائی بھی کم نہیں لے گا۔ میں بنگالی میں کہتی ہوں۔ ’’تم نے تو ایک ٹکہ لینے کا بولا تھا۔ اب پھڈا کیوں ڈالا ہے۔ یہ تو غلط ہے۔ ‘‘

’’ہاں ہاں میں غلط ہوں ۔ بس تم لوگ ٹھیک ہو۔ ہم لوگ سب جانتے ہیں۔ تم پچھمی پاکستانی ہماری ساری پٹ سن سمیٹ کر لے جاتے ہو۔ ہماری چینگڑی ماچھ کا غذائیت سے بھرا سر تک نہیں چھوڑتے ہو۔ تم لوگ ظالم ہو۔ ہمیں لوٹ رہے ہو۔ تمہارا حال وہی ہوگا جو ڈین بین پھو میں فرانسیسی فوجوں کا قوم پرستوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔ ‘‘

میرے حلق میں کڑواہٹ ہی کڑواہٹ گھل گئی ہے۔ د کھ سے میں نے فوراً اپنے پرس کو کھولتے ہوئے تین ٹکہ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ تمہیں یہ سب کِس نے بتایا ہے۔ ‘‘ اپنی ہتھیلی پر دھرے پیسوں کو دیکھتے ہوئے وہ شرمندہ ہوگیا ہے۔ خجل سے لہجے میں بولا تھا۔ ’’ بنگلہ بندھو کے لوگ بتاتے ہیں۔ ‘‘

گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے میں اپنے آپ سے کہتی ہوں۔ یہ سادہ لوح انسان جس کی دولت چینگڑی مچھلی ہے۔ کل اس کا سر کھانے والے کا سر نہیں پھوڑے گا تو اور کیا کرے گا؟

٭٭٭  ٭٭٭

کوریڈور کے آخری کونے میں کھڑی میں زار زار روتی ہوں۔ شدت گریہ سے میری آنکھیں جلنے لگی ہیں۔ این ایس ایف کا عبد المالک متحدہ پاکستان کا علمبردار جس سے میری ابھی تک صرف دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا ہے ۔ عبد المالک جو میرا رشتہ دار نہیں ، میرا عزیز نہیں۔ پر وہ میری متاع تھی۔ میری قوم کی گراں قدر متاع کہ وہ دشمنان وطن عناصر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنا ہوا تھا۔ اس دیوار کو ٹی۔ ایس۔ سی سینٹر میں عوامی لیگی غنڈوں نے توڑ ڈالا تھا۔
حب الوطنی کے چند دیوں میں سے ایک اور بجھ گیا ہے۔ اندھیرے بڑھ رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کس کس کو نگلیں گے؟

٭٭٭  ٭٭٭

وہ اپنے آراستہ پیراستہ گھر میں کسی مہارانی کی طرح رہتی تھی۔ وہ جو میرے یونیورسٹی اُستاد کی بیگم تھیں۔ وہ جو ماچھ بھات کھاتی تھی۔ ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابو ں کو اٹک اٹک کر پڑھتی تھی۔ نواکھلی کی کٹھن بنگلہ بولتی تھی۔ وہ جو روٹی کھانے اور لسی پینے اور پنجابی بولنے والوں سے بہت پیار کرتی تھی وہ جسے لاہور آنے کی بہت تمنا تھی۔
میری آنکھیں ڈب ڈب کر اُٹھی ہیں کہ میں نے اُسے لاہور کے ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر ہاتھ سے پنکھا جھلتے دیکھا ہے۔ آنسو اُس کی آنکھوں سے خشک ہیں۔ ایک نظر اُس نے کھڑکی سے باہر اُگے سبزے پر ڈالی ہے اور کہا ہے۔
’’لاہور تو میں آنا چاہتی تھی پر ایسے نہیں جیسے آئی ہوں۔ ‘‘
وہ پھر خاموش ہے۔ دیر بعد اُس نے کہا۔
’’ تم میرے جذبات کو شاید سمجھ ہی نہ سکو۔ زمین کا وہ ایک خاص قطعہ جس میں وہ صدیوں سے رہتا چلا آیا ہو۔ جس سے اُس کے ذہنی اور جذباتی رشتے وابستہ ہوں ۔ جہاں اس کے باپ دادا کی ہڈیاں دفن ہوں اور وہ اُسے اپنا اور بالکل اپنا سمجھتا ہو۔ پر ایک دن ایکا ایکی اُس کے سارے رشتے اُس سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اپنی جان بچانے کے لئے اُسے اَن دیکھی جگہوں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ ‘‘
میں نے رندھے گلے اور برستی آنکھوں سے سوچا ہے کہ اگر میرے ساتھ ایسا ہو۔ ۔ ۔ میرے دل کی گہرائیوں سے صرف یہ دعا نکلی ہے۔
’’ یہ ٹکڑا ،یہ میرا بچھا کچھا پاکستان میرے معبود! ابد تک قائم رہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).