چہرے مہرے( خاکوں کا مجموعہ) از حمیدہ اختر حسین رائے پوری



حمیدہ اختر حسین رائے پوری مشہور نقاد ، افسانہ نگار اور ادیب اختر حسین رائے پوری کی بیوی تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد ”ہمسفر” نامی کتاب لکھ کر شہرت حاصل کی۔ ان کی ایک اورکتاب ”وہ کون تھی” کے نام سے منظر عام پر آئی۔ ان کے لکھے گئے خاکوں کا مجموعہ ”چہرے مہرے ” کے نام سے منظر عام پر آیا جس میں کل چار خاکے شامل تھے۔
اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 2004ء میں منظر عام پر آیا ۔صفحات کی تعداد 200 اور کتاب کی قیمت 200 روپے تھی۔ یہ ایڈیشن مکتبہ دانیال کراچی نے شائع کیا تھا۔
”چہرے مہرے” میں شامل پہلا خاکہ ”صائمہ” کا ہے جس کا اصل نام حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے ساجدہ بتایا ہے۔ جو ایک رات شدید بارش کے دوران ڈپٹی صاحب کے گھر پناہ لینے آتی ہے۔ بیس بائیس برس کی وہ معصوم اور خوبصورت لڑکی ڈپٹی صاحب اور ان کی بیوی کو اس قدر بھاتی ہے کہ وہ اسے اپنی بیٹی بناکر اسے نیا نام صائمہ دیتے ہیں ۔
وہ لڑکی ڈپٹی صاحب اور ان کی بیوی کو اپنا سرپرست جان کر ان کے اندر سے آہتہ آہستہ مایوسی کی کیفیت ختم کردیتی ہے۔ جو وہ اپنے بیٹے فرید اور بیٹی راشدہ کے امریکہ شفٹ ہونے کے بعد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ صائمہ ڈپٹی صاحب اور ان کی بیوی کے حلقۂ احباب میں موجود بوڑھوں کی دل چسپی کا سامان کرنا شروع کرتی ہے۔ ”بیٹھک” کے نام سے بوڑھوں کی ایک انجمن قائم کرتی ہے۔ جس کا اجلاس ہر ہفتے گروپ کے ہر رکن کے یہاں منعقد ہوتا ہے۔معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بوڑھے غریب بچوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لینے لگتے ہیں۔صائمہ کی کوششیں رانی ایجوکیشنل ٹرسٹ کی صورت میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کی صورت میں رنگ لاتی ہیں۔ بعد ازاں صائمہ ذہنی معذور اور نابینا افراد کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے کا عزم کر لیتی ہے۔ صائمہ کی شادی ایک بہترین خاندانی لڑکے سے ہوجاتی ہے جو اس کے مشن میں اس کا ہمقدم ہوتا ہے۔ ذہنی معذور اور نابینا لوگوں کے ادارے کے لیے ایک صاحب زمین عطیہ کر دیتے ہیں۔اس زمین پر رہنے والے خانہ بدوش صائمہ کو یر غمال بنا کر اس کے گھر والوں سے ایک کروڑ کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ ڈپٹی صاحب صائمہ کا شوہر اور اس کے گھر والے کسی طرح اسے پولیس کی مدد سے آزاد کرواتے ہیں۔ اور آئندہ اسے اس قسم کی سر گرمیوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو وہ ایک نئے عزم سے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اس حوالے سے اس کا شوہر بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔
مجموعی طور پر اس خاکے کا بیانیہ پر اثر ہے۔ خاکے میں رونما ہونے والے واقعات اور حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا بیانیہ اس میں جان ڈال دیتا ہے۔ حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا کہنا تھاکہ یہ کردار ان کے ارد گرد موجود تھااور بوڑھوں کے کردار بھی انھوں نے اپنے ارد گرد سے ہی لیے تھے جو بچوں کے امریکہ منتقل ہوجانے کے بعد ہزار ہزار گز کے ڈیفنس کے بنگلوں میں تنہا زندگی گزار رہے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں صائمہ جیسے کردار شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔
انھوں نے ”چہرے مہرے” کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ”چہرے مہرے” میں اصل کہانی (صائمہ) شاید میری تصوراتی ہے۔ لیکن اس کہانی کے دیگر کردار اصل ہیں اور ان کے مسائل بھی حقیقی ہیں۔
”چہرے مہرے” میں دوسرا خاکہ معروف علم دوست شخصیت ، اور سابقہ شیخ الجامعہ کراچی، جمیل جالبی کا ہے ۔اس خاکے میں حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے جمیل جالبی کی شخصیت، علم دوستی، اور اختر حسین رائے پوری سے ان کے لگاؤ کا تذکرہ کیا ہے۔ جمیل جالبی کے گھر میں ہونے والی آموں کی دعوت، ان کی بیگم کی سلیقہ مندی، بچوں کی فرمانبرداری، بابائے اردو سے لگاؤ، انجمن ترقی اردو سے لگاؤ کا تذکرہ، خود حمیدہ اختر حسین رائے پوری کو اختر حسین رائے پوری کے وفات کے صدمے سے نکالنے کے لیے، لکھنے کی طرف راغب کرنا اور ان سے مختلف کتابیں لکھوانے کا احوال بھی موجود ہے۔ چودہ صفحات پر مشتمل جمیل جالبی کا یہ خاکہ حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی زندگی کے چند ایک واقعات تک محدود ہے۔ جو جمیل جالبی کی شخصیت کا ان کی خوبیوں اور خامیوں کا مکمل طور پر احاطہ نہیں کرتے۔

”چہرے مہرے” میں موجود تیسرا خاکہ ”پاشی” فاطمہ ثریا بجیا اور زہرہ نگاہ کی والدہ کا ہے۔ جنھیں حمیدہ اختر حسین رائے پوری پچھلے پچاس برس سے جانتی تھیں۔ اس خاکے میں پاشی کی علم دوستی، موسیقی اور دستکاری سے واقفیت کے علاوہ ان کی زندگی کے برتنے کے سلسلے کو حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے انتہائی مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ حیدر آباد دکن کے ایک معزز گھرانے کی بیٹی پاشی قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان آئیں تو عیش و عشرت چھوڑنے کے بعد بے سرو سامانی میں یہاں رہتے ہوئے بھی ان کی شاہانہ طبیعت ہر جگہ نمایاں تھی۔ دس بچوں کی پرورش اور ساتھ ساتھ دوسروں کے کام آنا پاشی کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔

”چہرے مہرے” میں شامل آخری خاکہ ”مس نیوس” کا ہے جو ولایت سے علی گڑھ اپنے محبوب کی خاطر آئی تھیں۔ پھر تاعمر ہندوستان میں رہیں۔ اپنے محبوب کی بیوی کا علاج کیا۔ اس کے بیٹے کی پرورش اپنے بیٹے کی طرح کی مگر وہ بھی اپنے باپ کی طرح بے وفا نکلا۔ پاکستان آکر کئی سال بندر روڈ پر ڈاکٹر لطیف کے ہسپتال میں کام کیا۔ بیمار پڑنے پر اپنے چوکیدار کے بیٹے سے نکاح کر کے مسلمان ہو گئیں۔ ہری پور ہزارہ شفٹ ہو گئیں۔ بالاخر انتقال کے بعد وہیں دفن ہوئیں۔ حمیدہ اختر حیسن رائے پوری کا کہنے کا انداز اس خاکے میں بھی نمایاں ہے اور شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں شامل خاکے سادہ اورعام فہم اورز بان میں لکھے گئے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی اس بات کی تصدیق کردی تھی کہ حمیدہ اختر حسین رائے پوری قصہ گوئی میں مہارت رکھتی ہیں۔اس بات کی تصدیق ان کی دیگر کتابوں ”ہمسفر”، ”وہ کون تھی” سے بھی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).