مولانا طارق جمیل اور ضبط ولادت کانفرنس


مولانا طارق جمیل صاحب ایک پبلک فگر ہیں۔ آپ کی سحر بیانی نے کئی دلوں کو پلٹا، اذہان کو بدلا، رب کے باغی اس کے دوست بنے۔ گلوکار حضرات نے موسیقی چھوڑ کر تسبیح تھام لی۔ شوبز کی شخصیات نے چہروں پر داڑھیاں سجا لیں۔ کرکٹ سٹارز کا رشتہ مساجد سے جڑا۔ مولانا کی شخصیت ہر طبقہ میں یکساں طور پر مشہور اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ کے بیان میں اللہ نے بلا کی کشش رکھی ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب اکثر و بیشتر سیاستدانوں سے بھی ملتے رہتے ہیں۔

ان ملاقاتوں کا مقصد صرف ان کی اصلاح ہوتا ہے۔ لہذا نواز شریف سے ملاقات پر مسلم لیگ والوں کو خوشیوں کے شادیانے اور تحریک انصاف والوں کو مولانا کی کردار کشی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح عمران خان سے ملاقات پر مخالفت کا رویہ مسلم لیگ کو زیب نہیں دیتا۔ یہ معمول کی ملاقاتیں ہیں۔ ان ملاقاتوں سے کسی کے سیاسی نظریات کی حمایت یا مخالفت مقصود نہیں ہوتی۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں وزیر اعظم، چیف جسٹس صاحب سمیت کئی اعلی حکومتی اور عدالتی شخصیات نے شرکت کی۔ اسی پروگرام میں مولانا طارق جمیل صاحب بھی مدعو تھے۔ مولانا صاحب نے پروگرام میں تقریر بھی کی۔ کل سے سوشل میڈیا پر مولانا کی تقریر زیر بحث ہے۔ کچھ حضرات مخالفت کچھ حمایت میں بول رہے ہیں۔

پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیں کہ مثبت تنقید اور اختلاف رائے شخصیات سے رکھا جا سکتا ہے اور یہ کوئی قبیح فعل نہیں ہے۔ انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے علاوہ کوئی شخصیت چاہے جتنی بلندی کو چھو لے لیکن اختلاف کے دائرے سے باہر نہیں رہ سکتی۔ اس لیے مولانا طارق جمیل صاحب سے علمی اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ضبط تولید کانفرنس میں مولانا کی شرکت کا تعلق ہے اس بارے میں سنجیدہ حلقوں میں ضرور تشویش پائی جاتی ہے۔

سوچنے کا امر یہ ہے کہ جنرل باجوہ، چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کو یہ مولانا طارق جمیل اور ثاقب رضا مصطفائی کی ضرورت آسیہ مسیح فیصلے کے بعد کیوں پیش آئی جب پورے ملک کی مذہبی قیادت اضطراب کا شکار ہے۔ مذہبی حلقوں میں حکومت اور عدلیہ کے خلاف شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ عالمی دباؤ کے تحت کیا گیا یے۔ اس بارے میں بہت سے سوالات حکومت کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ علماء جیلوں میں یا سڑکوں پر ہیں۔

مفتی اعظم پاکستان سے لے کر ایک چھوٹی مسجد کے مولوی تک اس فیصلے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں مولانا طارق جمیل صاحب کا ایسی مجالس میں جا کر حکومت کی تعریف کرنا خود کئی سوالات کو جنم دیتا یے۔ قارئین خود بتائیں کہ مولانا پر ان زمینی حقائق کی روشنی میں تنقید ہو گی یا نہیں؟ کیا عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہو گا کہ آسیہ مسیح کیس میں ایک متنازع فیصلہ دے کر عوام میں اپنی بدنامی چھپانے کے لیے مولانا طارق جمیل صاحب جیسے علماء کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

دوسری بات، جو زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ تقریب ایک مغربی فلسفے کے مطابق ضبط تولید کے عنوان ہر ہو رہی تھی۔ چیف جسٹس صاحب کو یہ تشویش یے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وسائل کی کمی کا سامنا یے۔ آبادی کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے بالکل مختلف ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی بائیس منٹ کی تقریر میں خاندانی منصوبہ بندی کی اگر حمایت نہیں تو مخالفت بھی نہیں۔

انہوں نے درمیان کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن مولانا کی ایسی تقریب میں شرکت سے سادہ لوح عوام کی سمجھ میں تو یہ ہی آئے گا کہ ضبط تولید ایک اچھا فعل ہے کیونکہ مولانا طارق جمیل صاحب بھی چیف جسٹس صاحب کے ساتھ ہیں۔ کم از کم مولانا صاحب کو اس مجلس میں اسلام کا بیانیہ کھل کر نہ سہی جزوی طور پر ضرور بیان کرنا چاہیے تھا۔ اگر مولانا کے لیے یہ ممکن نہیں تھا تو ایسی تقریب میں شرکت کی ضروت بھی نہیں تھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ عذر کر لیا جاتا تو یہ ہنگامہ سر ہی نہ اٹھاتا۔

تیسری اور آخری بات مولانا کا عمران خان کو سلوٹ اور سلام پیش کرنا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ عمران خان اپنے دعوی میں مخلص نہیں ہے۔ مدینہ کی ریاست والا ان کا دعوی ان کے عمل کے مطابق نہیں ہے۔ زبان پر ریاست مدینہ کا تذکرہ اور اندرون خانہ اسلام دشمنی ان کی حکومت کے شروع کے دنوں میں عیاں ہو چکی ہے۔ مولانا صاحب کا یہ فعل بھی اختلاف کا ذریعہ بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).