بھیک مانگنا قومی اور انفرادی شعار ہے؟


لاہور جائو تو دریا کے کنارے اور نہر کے کنارے لوگ پلاسٹک کے تھیلوں میں گردے، پھیپھڑے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور چیلوں، کوّوں کو ڈال رہے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ گلیوں، محلّوں میں سائیکل پر یہ آواز لگا کر بیچ رہے ہوتے تھے، چیلوں کے واسطے گوشت۔

اب جبکہ محلّہ داریاں، وہ گلیاں ہی نہیں رہیں تو لوگ اب نہر اور دریا کے کنارے، گاڑیوں سے بھری سڑک کے کنارے ہوا میںیہ گوشت اچھال رہے ہوتے ہیں اور کووّں سے زیادہ چیلیں اتنی نیچی آ کر جھپٹا مارتی ہیں کہ کئی دفعہ موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں پر جاتے لوگوں کی آنکھوں اور منہ پر خراشیں پڑ جاتی ہیں۔

آپ پوچھیں گے یہ اس طرح گوشت کیوں اچھالتے ہیں۔ اپنے طور پر اپنے خاندان کی بلائیں دور کرنے کیلئے۔ خیر یہ تو اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ لوگ اپنے گھر کی دیواروں پر بھی گوشت کے پارچے ڈال دیتے ہیں۔ پوچھو تو کہتے ہیں ہمارے یہاں جنّات آتے ہیں، یہ پارچے ان کی ضیافت کیلئے ہیں۔

پھر وہی بات اب پاکستان میں یہ ہو گیا ہے کہ آپ بعض موضوعات پرتو، خاص کر پڑھے لکھے لوگ تو بول ہی نہیں سکتے، جو بولتے ہیں ان کیلئے کوئی قانونی حد نہیں، ورنہ چیف جسٹس کوئی تو حد لگاتے۔ اب تو لوگوں کے بولنے کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ وہ اداروں کے بارے میں یا پھر ڈاکٹر سلام کی عظمت کے بارے میں جو چاہئیں کہہ دیں، خاموش رہ کر قبول کریں، اب یہی زندگی ہماری ہے۔

سڑکوں کے چوراہوں پر ہر شہر میں، چھوٹے بچّے بچّیوں کے ہجوم آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کی گاڑی سے ایسے چمٹتے ہیں کہ کچھ لئے بغیر ہٹتے ہی نہیں۔ ہر روز اخبار میں آتا ہے کہ بھیک مانگنے والوں کے خلاف پولیس کو ہدایت دے دی گئی ہیں۔

مجھے یاد آتا ہے آج سے چالیس سال پہلے کا ایک واقعہ، سوشل ویلفیئر محکمے نے بھکاریوں کے لئےگھر بنایا، پکڑ پکڑ کر انہیں اس گھر میں رکھا، باہر پولیس کا پہرہ، اچھا کھانا، پہننا دیا۔ دو دن بعد وہ پشت کی دیوار پھاند کر کسی وکیل کے پاس گئے اور عدالت میں حبس بے جا کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔

انہوں نے کہا ہماری شخصی آزادی چھین لی گئی ہے وہ کامیاب رہے، حکومت ناکام۔

اسی طرح ایک دفعہ جب نوٹ تبدیل کئے گئے تو عام لوگوں کے بجائے زیادہ تر گداگر، تھرے کے تھرے نوٹوں کے، بدلوانے کیلئے آئے۔ میں تو آج کل یہ بھی آتے جاتے دیکھتی ہوں کہ صبح کو کھلےمنہ کے ڈبّے میں سے بچّے کسی بھی چوک میں اترتے ہیں اور شام کو اسی ڈبّے میں اٹھانے والے آ جاتے ہیں۔

شام کو تو بھکاریوں کا ہجوم ہوتا ہے،بڑی ڈھٹائی سے آپ سے مانگتے ہیں اور اگر انہیں نہ دو تو آپ کوبددعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ یہ بچّے جو بھیک مانگتے ہیں ان کو برگر کھاتے، کولڈ ڈرنک پیتے، آئس کریم کھاتے، میں نے خود دیکھا ہے۔

 یہ سب کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، کسی بھی ریاستی ادارے یا ابلاغ عامہ کے ذرائع نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ عقل کی بات پر تو دھیان نہیں دینا۔اب تو سڑک کے کنارے شام کے وقت کدال لئے ہٹے کٹے جوان کھڑے ہوتے ہیں، منہ کھول کر کہتے ہیں کوئی کام نہیں ملا۔

بچّوں کیلئے روٹی لے کر جانی ہے، خاموش بزرگ بھی بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جن کو مانگتے ہوئے شرم آتی ہے، بیٹوں نے گھروں سے نکال دیا ہے، ان کو پیسے دینا اچھا لگتا ہے۔

اسی طرح معذوروں کیلئے بھی دل دکھتا ہے مگر کئی لوگ تھیلا لئےایک عرصےسے سڑک کے کنارے کھڑے مانگتے رہتے ہیں۔ اب آپ کہیں گے جب حکومت مانگتی ہے اور ذلیل ہوتی ہے، اس پر کچھ تو نہیں کہتے۔ قیام پاکستان کے وقت سے مولانا چراغ حسن سے لے کر مولانا ظفر علی خان، مرزا ابراہیم، سبط حسن، فیض صاحب اور حبیب جالب اپنی تحریروں سے شرم دلاتے اور قائداعظم کی سادگی اور کفایت کے اصول یاد کراتے رہے.

ساتھ ہی سیلاب زدہ علاقوں میں جب انجلینا جولی آئی، آفت زدہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس نے سوکھی روٹی کھائی، جب وزیراعظم سے ملنے آئی اور کھانے پر سونے کے حاشیے والی پلیٹوں میں لاتعداد کھانے سامنے دیکھے تو اس سے وہ کھانے کھائے نہیں گئے۔ ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ وزیراعظم صاحب کا پورا خاندان ملتان سے لاہور ہوائی جہاز میں انجیلنا جولی کے ساتھ تصویریں اتارنے آیا۔

اب مڑ کر دیکھیں تو اورنج ٹرین سے لے کر ملتان بس اور سی پیک کے معاملات میں اندرون خانہ گڑبڑ ہے جس کے باعث چین کی طرف سے وہ التفات نظر نہیں آ رہا جس کے باعث پاکستان کے اخباروں نے بھی چینی ایڈیشن نکالنے شروع کئے تھے۔بھیک مانگنے والے بل گیٹس کو بتائیں کہ پاکستان کے بچّوں کے اسکولوں میں غسل خانے نہیں ہیں۔ آپ آ کر بنا دیں۔ پھر بھیک!

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).