برطانیہ، یورپ اور مسلمان


\"khurramاگست 2010۔ اسپتال کا \’تعارفی (انڈکشن) دن\’ ہے۔ مجھ سمیت کوئی سو سوا سو ڈاکٹر، نرس، ٹیکنیشن، طبی مددگار، سیکریٹری اور گارڈز کا اس عالیشان اسپتال میں پہلا دن ہے۔ میری یہ برطانیہ میں پہلی نوکری ہے۔ اس سے قبل میں آئرلینڈ میں مقیم تھا جہاں میں سعودیہ سے آیا تھا۔ نوواردوں کو تمام قواعد و قوانین سے آگاہ کرنے کے لئے صبح سے شام تک لیکچر جاری ہیں۔ لنچ بریک کے بعد لیکچر کا عنوان ہے۔ \’ تنوع اور برابری کے حقوق\’ ایک سفید فام مقرر مختصر فلموں، سلائیڈوں اور اعداد و شمار کی مدد سے سمجھاتا ہے کہ دورانِ ملازمت اگر آپ کے ساتھ کسی قسم کا نسلی، مذہبی یا صنفی تعصب برتا گیا تو آپ کو فوراً اس کے خلاف سخت ترین احتجاج کرنا ہے۔ وہ ایسے واقعات کی شکایت کے لئے اسپتال میں واقع ایک دفتر کا پتہ اور ملکی سطح پر کام کرنے والے اداروں کی ویب سائٹس بھی بورڈ پر دکھاتا ہے اور اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ حالیہ تاریخ کے ایسے مناقشات اور مقدمات کے حوالے بھی دیتا ہے جس میں عصبیت کے شکار افراد کی داد رسی کی گئی اور ساتھ ہی ذہنی اذیت کی تلافی میں خطیر رقوم بھی ادا کی گئیں۔ میرے لئے جو پاکستان، سعودیہ اور پھر یورپ میں کھلے بندوں امتیازی سلوک دیکھتا اور سہتا آیا تھا یہ ساری باتیں ایک خواب کی طرح تھیں۔ مجھے برطانوی پالیسیوں سے دسیوں اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس ملک پر نسل پرستی کا الزام نہیں لگا سکتا۔

ایک غیرملکی کے طور پر میرے پاس برطانیہ کو پچھلے تین چار سو برس میں عالمی تاریخ کا عظیم ترین ملک کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے یہیں جنم لیا، صنعتی انقلاب یہیں وقوع پزیر ہوا، جمہوریت جس کو آج ہم سب سے بہتر سیاسی نظام کہتے ہیں کی مسلسل نشوونما اسی سرزمین پر ہوئی۔ کرکٹ، فٹبال، ٹینس، سنوکر، باسکٹ بال، نیٹ بال، سکواش، ڈارٹ ان تمام کھیلوں کی ایجاد اور اصولوں کی وضع یہیں ہوئی۔ چائے جو دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے کی عالمی مقبولیت یہاں کے باسیوں کی مرہونِ منت ہے، انگریزی جو آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان سمجھی جاتی ہے ظاہر ہے انگریزوں کی بھاشا ہے، اینگو سیکسن قانون جو دنیا کی آدھی سے زیادہ اقوام کے دساتیر کی جڑ بنیاد ہے یہیں سے نکلے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے کتنے ہی ممالک مثلاً سعودی عرب، عراق اور اردن برطانیہ ہی نے بنائے۔ حد تو یہ ہے کہ جس ملک کو آج ہم انڈیا کے طور پر جانتے ہیں وہ انگریز کی آمد سے پہلے وجود ہی نہیں رکھتا تھا بلکہ مغل دور میں کئی سو آزاد ریاستیں اپنے خود مختار نوابوں کے زیرِ انتظام تھیں۔

باہر سے دیکھنے والے کے لئے ہر دوسرا معاشرہ بہت متحد اور ہم آہنگ لگتا ہے لیکن درون خانہ اس میں مختلف بلکہ متضاد رحجانات اور قوتیں پائی جاتی ہیں۔ برطانیہ ہی کی مثال لیں ایک طرف وہ نوآباد کار تھے جو دنیا کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں سے سستا خام مال اپنی صنعتوں کے ذریعے تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل کر رہے تھے اور ان کو فروخت کرکے اپنی دولت میں اضافہ کررہے تھے لیکن ایک عام برطانوی کے حالاتِ زندگی انتہائی پسماندہ اور سخت تھے۔ برطانیہ صرف ان لوگوں کا وطن نہیں رہا جو بادشاہت، نسل پرستی، دوسرے ممالک پر فوج کشی اور اپنے عوام کا خون چوسنے کی وکالت کرتے رہے ہیں بلکہ یہاں وہ لوگ بھی بستے ہیں جو جمہوریت پسند، فوجی مہم جوئی کے مخالف ہیں اور قوموں اور طبقوں میں تفاوت کا خاتمہ کرکے مساوی تعلقات کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔ اول الذکر کو دائیں بازو کی فکر کا پرتو کہاجائے گا تو ثانی الذکر بائیں بازو کے نمائندہ کہلائیں گے۔ یہ اب ہمارا کام ہے کہ کس قوت کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔

برطانیہ میں پاکستانی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد پہلی بار دوسری جنگ عظیم کے بعد ان غیر ماہر صنعتی ورکرز کی شکل میں آئی جو منگلہ کے آس پاس کے علاقوں سے درآمد کئے گئے تھے۔ غیر تعلیم یافتہ، دیہاتی سوچ کے حامل، سماجی شعور سے قطعاً نابلد اور بدلتے ہوئے ماحول میں خود کو ڈھالنے سے قاصر یہ پہلی نسل بہت جلد ذات برادری کے انہی گورکھ دھندوں میں الجھ کر رہ گئی جسے اتنی بڑی ہجرت کے بعد توڑنے کا امکان میسر تھا۔ ستم بالائے ستم مساجد کے مولوی کی شکل میں انہوں نے ایک ایسے طبقے کو اپنا رہنما بنا کر مسلط کرلیا جس کا کسی پیداواری عمل میں کوئی کردار نہیں۔ ان کی دوسری اور تیسری نسل میں برطانوی معاشرے سے اجنبیت صاف دیکھنے میں آتی ہے۔ دیسی علاقوں کے در و دیوار سے پسماندگی اور فلاکت ٹپکتی ہے۔ ان علاقوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پاکستانی، بنگالی، افغانی، صومالی، عراقی، لیبیائی الگ الگ مساجد ہیں۔ آپ اندر قدم رکھتے ہیں تو مختلف فرقوں کے خلاف نفرت آمیز پوسٹرز آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ جمعے کے خطبات، دعائیں اور مسجد کو دئے گئے چندے کے ساتھ آئی تمناؤں کے اعلانات سن کر آپ کو شک پڑ جاتا ہے کہ آپ برطانیہ میں ہیں یا پاکستان کے کسی انتہائی پس ماندہ گاؤں میں۔ حلال گوشت کی دکانوں پر تعویذ اور جن اتارنے والے عاملوں کے اشتہارات دیکھنے میں آتے ہیں۔ گھریلو تشدد میں یہ کمیونٹی پہلے نمبر پر ہے۔ یہ اندازہ دشوار نہیں کہ مفت تعلیم اور برابری کے مواقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ حالیہ دنوں میں کم عمر بچیوں کے ساتھ سیکس سکینڈل خوب بدنامی کا باعث بنے۔

دوسری جانب وہ پڑھے لکھے پروفیشنل ہیں جو پچھلے دو عشروں میں یہاں منتقل ہوئے اور مساوی مواقع ملنے سے خاصی ترقی کرتے گئے۔ لیکن ان کے اذہان کی آبیاری جنرل ضیا اور اس کے بعد کے تعلیمی نصاب سے ہوئی ہے- ذاتی زندگی میں کچھ خاصے لبرل ہوسکتے ہیں لیکن اکثریت اجتماعی لحاظ سے پاکستان کے معاملات میں انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے ترجمان ہیں یہاں یہ ہر مسئلے کو کفر و اسلام کی جنگ کے تناظر میں دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ آزادی اظہار کا ان کے نزدیک مصرف یہ ہے کہ مزید تنگ نظری کو فروغ دیا جائے۔ ملٹی کلچرلزم سے یہ مراد سمجھتے ہیں کہ ہر گلی میں فرقہ وارانہ مسجد اور مدرسہ بنا کر اس کی سرپرستی کریں۔ ضرورت پڑنے پر یہ حالات و واقعات سے لاتعلق ہو جانے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ ان میں یہ موقع پرستانہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر یہاں تنگ پڑے تو ساز و سامان اٹھا کر کہیں اور بھی جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ آپشن کم تعلیم یافتہ اور برطانوی نژاد پاکستانیوں کو دستیاب نہیں۔

برطانیہ کے حالیہ ریفرنڈم میں مسلمانوں کا رویہ انتہائی افسوس ناک دیکھنے میں آیا۔ عقل و فہم اور زمینی حقائق کے تجزیوں کے بجائے فتووں پر توکل کا رحجان دیکھا گیا۔ متضاد فتاویٰ سننے کو ملے۔ ایک تحریک یورپ سے خروج (بریکسٹ) کی تھی جو اپنے موقف کی تائید میں یورپ کا ایک ایسا نقشہ دکھا رہے تھے جس سے اگر برطانیہ نکل جائے تو وہ ایک سجدہ ریز شخص کی شکل اختیار کرجائے گا۔ جس کی ٹانگیں ترکی پر مشتمل ہیں۔ گویا جلد پورا یورپ مشرف بہ اسلام ہوجائے گا۔

 دوسری طرف یورپ کے ساتھ رہنے کے حامی تھے جو ملت کی رہنمائی اس دلیل کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ایک دفعہ یورپ کو یہاں سے دیس نکالا مل گیا تو پھر مسلمانوں پر برطانوی اقدار کا احترام کرنے اور یہاں کے معاشرے میں ضم ہونے کے لئے دباؤ بڑھ جائے گا۔ \’مسلمانوں کی تہذیب اور شناخت\’ برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

برطانیہ میں جمہوری روایات بہت مستحکم ہیں۔ ہمیں بائیں بازو کے ساتھ صف آرا ہونا چاہئے۔ ہمیں عالمی قضیوں میں اس ملک کے منفی کردار کو ضرور زیرِ بحث لانا چاہئے لیکن اس التزام کے ساتھ کہ اس کا فائدہ ان اسلامی بنیاد پرستوں کو نہ پہنچے جو ہر بحث، ہر سرحد اور ہر آزادی کے خلاف ہیں۔ جن دوستوں کو یکایک سفید فام نسل پرستی کی پرچھائیاں نظر آرہی ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر وہ ذرا ایک دفعہ آئینے سے بھی رائے لے لیں ۔ اگر اپنی کمیونٹی میں سیکولر اور جدید رویوں کی ترویج کر کے اسے ملک میں ایک قابلِ احترام گروہ کا درجہ دلوایا جائے تو اس سے نا صرف اپنی خدمت ہوگی بلکہ پاکستان کا بھی بھلا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments