بادشاہی مسجد لاہور کی سیر


آج ہم آپ کو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ، شان و شوکت اور مغل طرزِ تعمیر کی شاہکار بادشاہی مسجد لاہور کی سیر کرائیں گے۔ جسے عالمگیری مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کو مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروایا تھا۔

بادشاہ ہونے کے باوجود مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دین دار اور نیک حکمران تھا۔ وہ اپنی گزر اوقات کے لئے قرآن پاک کی کتابت کرتا اور ٹوپیاں سیا کرتا تھا۔ بہرحال اقتدار کے حصول اور اس کی پختگی کے حوالے سے اورنگ زیب کی جدوجہد کو ابن انشا کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔ کہ ”اورنگزیب عالمگیر نے ساری زندگی نہ کوئی نماز چھوڑی تھی اور نہ کوئی بھائی چھوڑا“ ۔ اورنگزیب نے 1671 ء میں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ جو 1673 ء میں اورنگزیب کے سوتیلے بھائی مظفر حسین جس کو فدائے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا کی نگرانی میں مکمل ہوئی۔

مساجد دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اپنے اندازِ تعمیر کی وجہ سے دوسری عمارتوں سے الگ اور نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی سکونِ قلب اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ خوبصورت گنبد، بلند و بالا مینار، وسیع صحن، آرائش و زیبائش اور نقش و نگار ان مساجد کی خصوصیات ہیں۔ مغلوں نے جتنی بھی مساجد تعمیر کروائیں ان میں اسلامی فنِ تعمیر کو پیشِ نظر رکھا۔ بلکہ اپنی انفرادیت کی وجہ سے مغل فنِ تعمیر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی۔

مسجد کی بیرونی دیواروں کو بہت محنت سے نقش و نگار سے سجایا گیا ہے۔ مسجد کے ہر کونے میں مربعی شکل کا ایک مینار ہے جس کے ساتھ سرخی مائل پتھر سے بنا برج اور سفید سنگ مرمر کا گنبد ہے۔ مسجد کے داخلی دروازہ کے اوپری کمروں میں حضور ﷺ، آپ کی بیٹی اور داماد سے متعلقہ متبرکات مقدسہ رکھے گئے ہیں۔ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ امیر تیمور انھیں بر صغیر میں لائے تھے۔ ان متبرکات میں ایک سبز عمامہ، ٹوپی، ایک سبز کوٹ، سفید شلواریں اور آپﷺ کے استعمال شدہ جوتے، سرمئی پتھر پر آپﷺ کے پاؤں کے نشان اور آپ کا ایک سفید جھنڈا جس پر قرانی آیات دھاگے سے کاڑھی گئی ہیں شامل ہیں۔ خلاصتہ التواریخ ( سجان رائے ) کے مطابق اس مسجد کی تعمیر پر چھے لاکھ روپے سے زیادہ خرچ آیا۔

آپ جیسے ہی مشرقی دروازہ سے داخل ہوتے ہیں تو وسیع صحن آپ کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ شاہ جہاں کے زمانے میں تعمیر ہونے والی مساجد کی طرح اس مسجد کی نماز گاہ صحن سے اونچی رکھی گئی ہے۔ جہاں ایک وقت میں 60000 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بلند محرابوں اور تین سفید سنگ مرمر کے گنبدوں پر مشتمل ہے۔ نماز کی جگہ 83 / 276 فٹ وسیع ہے۔ نماز گاہ کا درمیانی حصہ کافی وسیع ہے جس کے دونوں اطراف پانچ محرابیں ہیں اور کونوں میں چار ہشت پہلو مینار ہیں۔

نماز گاہ کے مرکزی داخلی راستہ اور پانچو محرابیں اور دیواریں سنگ مرر، نقاشی و پچی کاری سے سجائی گئی ہیں سنگ مرمر کے گنبد بڑی خوبصورت گولائی میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ درمیانی گنبد جو کہ باقی گنبدوں سے بڑا ہے اس کا قطر 62 فٹ 10 انچ ہے۔ اونچائی 69 فٹ ہے۔ اس کے گنبد پر سنہری چمکدار پیتل کی تہہ بچھائی گئی ہے۔ وسیع صحن کے فرش پر جائے نماز کی شکل میں ٹھنڈی اینٹوں کا فرش بچھایا گیا تھا جسے بعد میں سرخ چونے کے فرش سے بدل دیا گیا۔

مسجد کی دیواروں میں درس و تدریس کی غرض سے 80 حجرے بنائے گئے۔ جنہیں برطانوی دور میں منہدم کر کے محراب دار راہداریاں بنا دی گئیں۔ جن دنوں یہ عالیشان مسجد فوجی اسلحہ وبارود کے گودام کے طور پر استعمال ہو رہی تھی اس دوران سجد کی عمارت کو شدید تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔

سکھ جنگوں کے دوران، شیر سنگھ نے مسجد کے میناروں سے قلعہ میں محصور رانی چندر کور اور اس کے حامیوں پر گولہ باری کی جس سے قلعہ کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ 1840 کے زلزلہ میں شاہ برج کے ساتھ ساتھ، مسجد کے میناروں کو بھی بہت نقصان پہنچا اور میناروں کی اوپری منزل گر گئی۔ مسجد کی تعمیر نو کے دوران ان میناروں کی بھی تجدید کی گئی ہے۔ آج کل یہ مینار رات کے وقت اتنے روشن نظر آتے ہیں کہ تمام راہداریاں تیمور دور کے ایوان، ایک کے بعد ایک بنی ہوئی محرابیں، گہری کوٹھڑیاں، سفید گول گنبد اور ہوا محل جیسے اونچے مینار پریوں کی کہانی جیسا منظر پیش کرتے ہیں۔

بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کے دور کی شاندار مثال ہے۔ کبھی یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اب بھی اس کا شمار دنیا کی دس بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ فیصل مسجد اسلام آباد کی تعمیر سے پہلے اسے پاکستان کی سب سے بڑی مسجد کا درجہ حاصل تھا۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دہلی سے ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہ جہاں نے تعمیر کروائی تھی۔ معروف محقق سید محمد لطیف نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ میں اسے مکہ مکرمہ میں قائم الولید مسجد کے مشابہ قرار دیا ہے۔

بادشاہی مسجد۔ قلعہ لاہور جسے شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے کے بالمقابل تعمیر کی گئی۔ جس سے مغلیہ دور میں اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی اورنگزیب نے شاہی قلعہ کا مرکزی اور باوقار دروازہ بھی تعمیر کروایا جسے عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔

یہ عظیم الشان مسجد ایک بہت بڑے چبوترے پر بنائی گئی ہے۔ جو تمام کا تمام سرخ پتھروں کا بنا ہوا ہے اور زمین سے کافی بلند ہے۔ مسجد کے چاروں کونوں پر چار بلند مینار ہیں۔ ہر مینار کی بلندی تقریباً 176 فٹ ہے جبکہ چار چھوٹے مینار مسجد کے اندرونی ہال کے گرد ہیں۔ بڑے میناروں کی چار منزلیں ہیں۔ اوپر تک جانے کے لئے اندر گولائی میں سیڑھیاں ہیں۔ ان میناروں کے متعلق مشہور ہے کہ ان میں سے کسی بھی مینار پر کھڑے ہو کر جہانگیر کے مقبرے کے میناروں کو دیکھا جائے تو صرف تین مینار نظر آتے ہیں چوتھا مینار آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس سے اُس زمانے کے انجینئروں کی فنی مہارت ثابت ہوتی ہے۔

مسجد کے تین گنبد ہیں۔ ایک بڑا اور دو چھوٹے گنبد۔ یہ تینوں گنبد سفیدسنگ مرمر کے بنے ہوئے ہیں۔ مسجد کا اندرونی فرش سفید سنگ مرمر کا ہے جس میں سیاہ دھاریاں ہیں۔ ان سے نماز پڑھتے وقت سیدھی صفیں بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اندرونی دیواروں اور محرابوں ں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان حضوری باغ ہے جس میں ایک بارہ دری ہے جو بیرونی منظر کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کا مزار ہے جو سرخ پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے جو عظمت اور خوبصورتی میں کسی بھی عمارت سے کم نہیں ہے۔

سکھوں کے دور 1733 ء سے 1849 ء تک اس تاریخی مسجد کو مسلمانوں کے لیے بند کردیا گیا۔ اس سے قیمتی اشیاء لوٹ کر مسجد کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا تھا۔ بعد میں یہ مسجد انگریزوں کے قبضے میں رہی لیکن مسلمانوں کی طرف سے مسلسل مطالبے پر 1852 ء میں یہ مسجد واپس مسلمانوں کے حوالے کردی گئی۔ مختلف ادوار میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ 1850 ء میں اس کی نامکمل مرمت کی گئی۔ بعد ازاں 1939 ء سے 1960 ء تک مختلف مراحل میں اس کی مرمت جاری رہی۔ سن 2000 ء میں مسجد کے مرکزی ہال کے فرش کو تبدیل کیا گیا جبکہ سن 2008 ء میں جے پور انڈیا سے خاص طور پر سرخ پتھر منگوا کرمسجد کی مرمت کی گئی۔ 1993 ء میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ مسجد کے صحن میں جو 2,76,000 مربع فٹ ہے ایک لاکھ افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔

22 فروری 1974 ء کو لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39 ممالک کے سربراہوں نے اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔

اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کے لیے روزانہ سیکڑوں سیاح دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ سرخ و سفید پتھروں سے تیار کردہ اس عالی شان مسجد کو دیکھنے والے مغل فن تعمیر کے اس شاہکار کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو اس عظیم الشان مسجد کو ضرور دیکھیں۔ اس کی عظمت، خوبصورتی اور فن تعمیر سے آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya