تعمیر و توسیع بیت المکرم۔ خوف اور خدشات


\"Mosquée_Masjid_el_Haram_à_la_Mecque\"بیت المکرم، بیت العتیق، خانہ کعبہ، خانہ خدا، بیت الحرام، یہ تمام نام خانہ کعبہ کے ہیں جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز ومنبع کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اسی جانب، یعنی قبلہ رخ ہو کر، دن میں پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اگر ممکن ہو تو زندگی میں کم از کم ایک بار حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو صدیوں سے چلی آنے والی یہ تکریم وتوقیر اس کرہ ارض پر کسی اور عمارت یا مقام کو حاصل نہیں ہوئی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر وتوسیع اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو اب تک کم و بیش 9 سے 12 مرتبہ ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدائی طور پر خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت آدم ؑ نے کی اور روایت یہی کہتی ہے کہ ایسا ہی اللہ کا ایک گھر جنت میں بھی ہے جہاں فرشتے طواف کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ انسانوں کی عبادت کے لیے کرہ ارض پر یہ پہلا گھر ہے جو تعمیر کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے اس کی تعمیر نو کی۔ اس وقت اس کی مشرقی دیوار 46\’-6\’\’ جب کہ حطیم کی جانب والی دیوار33\’ تھی۔ اس وقت یہ صحیح معنوں میں ایک مربع نہیں تھا ۔ عبداللہ بن زبیر کے دور میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تو حطیم والارقبہ خانہ کعبہ کی مرکزی عمارت کے اندر شامل تھا۔ 693عیسوی میں جب عبدالمالک بن مروان کے عہد میں اس کی تعمیر نو ہوئی تو حطیم والے حصہ کو الگ کرتے ہوئے، موجودہ بنیادوں پر خانہ خدا کی تعمیر کی گئی۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید کی بھی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی ان ہی بنیادوں پر تعمیر نو کر دی جائے جیسا کہ عبداللہ بن زبیر کے دور میں تھی مگر امام مالک کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے اس نے خانہ کعبہ کی عمارت کو ایسا ہی رہنے دیا کہ جو ایک مربع نقشہ میں تقریباً ایک مکعب کے قریب قریب ہے۔ تب سے یہ مربع نقشے والا مکعب مسلمانوں کے لیے ایک علامت کے طور پر تعمیرات میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

\"mosque001\"1039 ہجری میں زبردست بارش کے سبب جب پانی خانہ کعبہ کے صحن میں آ گیا اور پانی نے 10 فٹ تک عمارت کو ڈبو دیا تو اس کی دو دیواریں جزوی طور پر زمین بوس ہو گئیں جن کی تعمیر نو کا کام 26 رمضان المبارک کو شروع ہوا۔ حجر اسود والی دیوار کو چھوڑ کر باقی تینوں دیواریں بھی گرا دی گئیں اور عبداللہ بن زبیر کے عہد کی طرح چاروں کونوں پر چار ستون کھڑے کر کے ایک پردہ لگا دیا گیا اور خانہ کعبہ کی تعمیر نو کر دی گئی۔ اس دوران میں یہ زائرین کے لئے کھلا رہا اور کبھی ایک دن کے لیے بھی زائرین کو حاضری سے نہیں روکا گیا۔ خانہ کعبہ کی آخری تعمیر نو مئی تا اکتوبر 1996ء میں ہوئی کہ جب خانہ کعبہ کے تعمیراتی سامان میں صرف قدیم پتھروں کو دوبارہ استعمال کیا گیا اور دیگر تمام سامان تعمیرات جس میں چھتیں ، لکڑی و دیگر تبدیل کر دیا گیا۔ البتہ دیواروں میں وہی قدیم پتھر ہی استعمال کیا گیا۔

مسلمانوں نے مساجد کی تعمیر کے لیے بنیادی رہنمائی ایک جانب اگر مسجد نبویﷺ سے حاصل کی کہ جو ایک مستطیل ہال تھا جس میں کھجور کے تنے ستون کے طور پر اور کھجور کے پتے چھت میں استعمال کیے گئے۔ ہندوستان میں مسجد کی تعمیر کا یہ انداز محمد بن قاسم کے ساتھ دیبل، کراچی کے راستے آیا اور ملتان اور اچ شریف تک پہنچا کہ جہاں آج بھی مساجد اسی طرح مستطیل ہال کی صورت میں تعمیر کی جاری رہی ہیں۔ مگر ہندستان میں مساجد کی تعمیر کا جو انداز مشرق وسطیٰ سے عثمانیوں کے عہد میں تعمیر ہونے والی مساجد کی صورت میں آیا وہ مربع نقشے پر بنیاد کرتا تھا۔ ایک، تین، پانچ یا سات مربع جگہوں کو ایک لائن میں جوڑ کر مستطیل ہال مسجد کے لیے بنایا جاتا رہا۔

\"mosqueپاکستان بننے کے بعد ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) میں اس وقت قومی سطح کی جامع مسجد کی تعمیر میں خانہ کعبہ کو ہی بنیاد بناتے ہوئے ایک مکعب بنا دیا گیا کہ جس کا بیرونی رنگ سیاہ کے بجائے سفید رکھا گیا اور بیت المکرم مسجد کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد جب اسلام آباد میں نئے دارلخلافہ کی تعمیر کی گئی تب بھی اسی مکعب کو بنیاد بناتے ہوئے فیصل مسجد کا ڈیزائن بنایا گیا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والا ماہر فن تعمیرویدات ڈیلوکی اپنی ڈیزائن فلاسفی میں بہت واضح لفظوں میں بتاتا ہے کہ اگر فیصل مسجد کی چاروں میناروں کی چوٹیوں کو بصری سطح پر جوڑ لیا جائے تو یہ بھی ایک مربع ہی بنتا ہے کہ جس کے اندر فیصل مسجد کا ایوان تشکیل پاتا ہے۔ گویا بصری سطح پر یہاں بھی خانہ کعبہ کا مکعب ہی بنیاد بناتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

مسلمانوں نے جہاں جہاں تعمیرات کیں اس مربع یا مکعب صورت کو اپنی عمارتوں میں استعمال کرتے رہے۔ اگر مستطیل بنانا بھی ہوتی تو دو یا تین مربع اشکال کو ملا کر ایک مستطیل حاصل کر لی جاتی۔ اس کے مقابلے میں غیر مسلموں نے جہاں بھی مستطیل جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے 1:1.333 کا تناسب استعمال کیا ہے۔ گویا ایک ضلع اگر ایک میٹر تھا تو دوسرا ضلع اپنے تناسب میں 1.333 رکھا گیا۔ اس کو Golden Mean Rectangle بھی کہا جاتا ہے جو رومیوں اور مصریوں کی عمارات سے لے کر آج تک استعمال کی جاتی رہی ہے۔ مگر اب مغرب نے مذہبی عمارات کی تعمیر پر پابندیاں لگاتے ہوئے تعمیرات کے انداز میں مربع یا مکعب کو ختم کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔

\"Mosque-Mecca\"سوئزرلینڈ میں جب مساجد کے میناروں کی تعمیر پر 2009ء میں پابندی کے لیے ایک بل ایوان میں پیش کیا گیا تو اس میں بنیادی دلیل یہی دی گئی کہ مساجد کے یہ مینار کہ جو دور سے دکھائی دیتے ہیں، اسلام کی تشہیر اور پروپیگنڈے میں موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہر میں ان کی موجودگی مسلمانوں کی موجودگی کا ثبوت بنتی ہے۔ ایوان نے کثرت رائے سے یہ بل منظور کر لیا اورسوئزرلینڈ میں مساجد میں مینار کی تعمیر پر پابندی لگا دی گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ایسی عمارتوں کے ڈیزائن کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ جو مکعب نہ ہوں، جن کی دیواریں کشش ثقل کے زیر اثر قائمہ الزاویہ نہ ہوں۔ ان ماہرین میں وہ شامل ہیں جو رد تشکیل (Deconstruction) تحریک کے زیر اثر ڈیزائن کر رہے ہیں۔ خانہ کعبہ کہ جس کی عمارت ایسی پرشکوہ لگتی تھی، اس کے تناسب کو چھوٹا کرنے کے لئے اس کے پاس اتنی اونچی عمارتیں بنا دی گئی ہیں کہ ان کے موازنے میں اب بیت المکرم کا مکعب بہت چھوٹا لگنے لگا ہے۔ حالاں کہ لندن میں سینٹ پال کیتھڈرل کی عظمت اور برتری قائم رکھنے کے لیے کسی عمارت کو اس سے اونچا تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، کیوں؟ کیا یہ اصول خانہ کعبہ کے پاس بلندو بالا عمارات کی تعمیر پر لاگو نہیں ہونا چاہئے تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments