ہندوستان کے مشکوک پولیس مقابلے


ہندوستان کی زبان، ثقافت، روایت، رواداری، بھائی چارگی اور رہن سہن مختلف اور منفردہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور اورنمایاں ہے۔ ہندوستانیوں نے جہاں پوری دنیا میں امن اور اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے تو وہیں مشترکہ تہذیب اور بھائی چارگی کے گیت بھی گائے ہیں۔ آج بھی پوری دنیا میں ہندوستان کی عزت اور قدرکے گن گائے جاتے ہیں۔ اس عزت اور وقار کی ہمہ جہت مقبولیت میں تمام ہندوستانی یکساں شریک ہیں۔

ہندوستان کبھی ایک مذہب اور قوم کا ملک نہیں رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب کو دنیا بھر کے حکمرانوں نے دل سے اپنایا اور اس شاندار تہذیبی روایات کے فروغ میں چار چاند بھی لگائے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں اور وزیروں کا تعلق مختلف مذاہب سے ہوتا تھا لیکن ان حکمرانوں نے تمام مذاہب اوربلا امتیاز ذات وپات سب کے ساتھ مل جل کر ہندوستان کی ترقی کے لیے کوششیں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پوری دنیا میں کثرت میں وحدت جیسے وصف سے مشہور ومعروف ہے۔

لیکن ہندوستان میں آج کل جہاں آئے دن انکاؤنٹر سے لوگ خوف زدہ ہیں تو وہیں سوجھ بوجھ رکھنے والا طبقہ پریشان بھی ہے۔ عالمی اخبارات اور میڈیا کی رپورٹنگ پر بھی ہندوستان میں بڑھتے ہوئے انکاؤنٹر سے عالمی برادری حیران و ششدر ہے۔ پوری دنیا میں ہندوستان کے لوگ آباد ہیں جو اپنے ملک کی سلامتی اور وقار پر کسی قسم کا کوئی دھبّہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم بہت سارے ہندوستانی خاموش ہیں اور اس طرح کی نا انصافی کے خلاف بولنا مناسب نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ممکن ہے ہندوستان میں زیادہ تر انکاؤنٹر ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے لوگ جو ایک خاص طبقے کے تعلق سے دل میں نفرت رکھتے ہیں، وہ اس جرم کے خلاف آواز اٹھانا مناسب نہیں سمجھ رہے ہیں۔

پچھلے کچھ مہینے سے ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش میں انکاؤنٹر کی خبر سے لوگوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ یوپی پولیس کی اس مہم کو متنازعہ طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ صبح ساڑھے چھ بجے صحافیوں کو یوپی کے شہر علی گڑھ کی پولیس فون کر تی ہے اور خفیہ طور پر دو مجرموں کے ساتھ فائرنگ کو ٹیلی ویژن پربراہِ راست دِکھانے کے لیے ایک خاص مقام پر آنے کی دعوت دیتی ہے۔ صحافی فوراً اس مقام پر پہنچتے ہیں اور دیگر صحافیوں کے ساتھ موقعہ ٔ واردات پر فلم بنانا شروع کردیتے ہیں۔

ان تمام صحافیوں کی فلم بنانے کی کارروائی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ’بالی ووڈ‘ فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ہندوستانی نیوز چینلز دستیاب ہیں، براہِ راست اس پولیس فائرنگ کو تمام لوگ دیکھ رہے تھے۔ اس کلپ میں دکھایاگیا کہ یوپی پولیس جھاڑیوں کے پیچھے سے مسلسل ایک بنگلہ پر گولیوں کی بوچھار کر رہی تھی۔ ویڈیو دیکھ کر ایک بات تو واضح تھی کہ اس وقت صرف پولیس ہی فائرنگ کر رہی تھی۔ پولیس فائرنگ تیس منٹ تک ہوتی رہی، پھر پولیس بنگلہ میں داخل ہوجاتی ہے۔ داخل ہونے کے بعد صحافیوں کو کیمرہ بند کرنے کا حکم دیا جاتا ہے کیوں کہ پولیس ان دونوں مجرموں کی لاش ہٹاتے وقت فلم بنانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ دونوں مجرموں کی تلاش پچھلے کئی مہینوں سے تھی اور یہ دونوں مجرم اپنے گھروں سے فرار تھے۔ ان دونوں کے خلاف جانچ پڑتال کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے چھ لوگوں کا قتل کیا تھا۔ جن میں دو ہندو پجاری بھی تھے جنہیں چند ماہ قبل ہی ان دونوں نے قتل کردیا تھا۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک چرائی ہوئی موٹر سائیکل پر سوار تھے، انہیں پولیس نے ایک چیک پوسٹ پر روکنے کی کوشش کی تو یہ دونوں وہاں تیز رفتار میں بھاگ کر اس بنگلے میں چھپ گیے۔

اس کے بعد پولیس نے ان دونوں کا انکاؤنٹر کرکے مار ڈالا۔ لیکن ان دونوں مجرموں کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ مستقیم اور نوشاد کو پولیس نے پہلے زدوکوب کیا پھر جیل میں مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد اس معاملے کو دبانے کے لیے پولیس نے ایسی کہانی گڑھی تا کہ سب کو معلوم ہو کہ یہ دونوں مجرم فرار تھے اور بنگلہ میں چھپے ہونے کی وجہ سے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

نوشاد کی ماں کا کہنا ہے کہ 16 ؍ ستمبر 2018 کو جب وہ کھیت سے واپس گھر لوٹی تو اپنی بیٹی کو روتی ہوئی پائی۔ گاؤں کے پڑوسی بھیڑ لگائے کھڑے تھے اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پولیس آئی تھی اور میرے بیٹے اور داماد کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور ان دونوں کو پولیس اسٹیشن اٹھا کر لے گیے۔ اس بات کی تصدیق پڑوسیوں نے بھی کی ہے اور کہا کہ چند پولیس والے ( جن میں کچھ پولیس وردی میں نہیں تھے ) دیکھا کہ وہ سب پولیس کی گاڑی سے اترے اور گھر میں گھس کر مستقیم اور نوشاد کو بے رحمی سے مارتے ہوئے باہر لائے اور انہیں گاڑی میں ڈال کر چلتے بنے۔

ابھی اس معاملے کو ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ یوپی پولیس ایک بار پھر شک کے کٹہرے میں کھڑی پائی گئی۔ اڑتالیس سالہ وِی ویک تیواری جو کہ ایپل کے سیلس منیجر کے طور پر کام کررہے تھے، انہیں بھی پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وِی ویک تیواری اپنے کام سے گھر لوٹ رہے تھے کہ ایک چیک پوسٹ پر پولیس نے رکنے کو کہا اور انہیں گولی مار دی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وِی ویک تیواری نے پولیس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ڈیوٹی پر تعینات ایک پولیس والے نے گاڑی کے سامنے سے ان پر گولی چلا دی۔

گولی مارنے والے پولیس پرشانت چودھری کا کہنا ہے کہ انہوں نے گولی اپنی دفاع میں چلائی تھی۔ کیوں کہ وِی ویک تیواری جس تیزی سے گاڑی چلا رہے تھے، اس سے انہیں لگا کہ وہ پولیس والے کو روند دیں گے۔ پرشانت چودھری کے اس بیان سے اعلیٰ افسران مطمئن ہیں اور پولس کی کارروائی کو درست بتا رہے ہیں۔ لیکن عام لوگ پولیس کی اس کارروائی کو غیر ضروری اور بربریت مان رہے ہیں۔ تاہم اس حادثے کے بعد ہندوستانی وزیر داخلہ نے یوپی کے وزیر اعلیٰ کو فون کر کے، معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کا حکم دیا ہے۔

پرشانت چودھری کو فی الحال معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وِی ویک تیواری کے خاندان والوں کو معاوضے کے طور پر چالیس لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔ تاہم پرشانت چودھری نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ مجھے غلط طور پر معطل کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے سنیئر پر الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف جانب داری برتنے کا الزام لگا یا ہے۔

یوپی پولیس کی اس طرح کی حرکت کو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی پولیس نے ان لوگوں کا انکاؤنٹر کیا ہے یا محض ایک ڈرامہ تھا؟ اگر مارے جانے والوں کے خاندان کی بات مانی جائے تو یہ معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کو پولیس گھر سے لے جاتی ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ بقول پولیس یہ دونوں مجرم فرار تھے اور چیک پوسٹ پر موٹر سائیکل نہ روکنے کی وجہ سے انہیں بنگلہ میں چھپے ہونے پر مار ڈالا گیا۔ وہیں ویڈیو دیکھنے سے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ فائرنگ یک طرفہ ہی کیوں ہو رہی تھی۔

یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ جب سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں، تب سے 433 لوگ انکاؤنٹر میں مارے جاچکے ہیں۔ یوپی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ دراصل انکاؤنٹر سے ریاست میں مجرموں کا خاتمہ ہورہا ہے اور ریاست کی صورتِ حال بہتر ہورہی ہے۔ لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ جس طرح سے نوشاد، مستقیم اور و ِی ویک تیواری کو پولیس نے مارا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ایک سوچی سمجھی سازش دکھائی دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت آزادنہ طور پر ان معاملات کی انکوائری کراتی ہے یا آنے والے دنوں میں مزید لوگوں کو مجرم بتا کر انکاؤنٹر کیا جاتا ہے۔ فی الحال ہندوستان میں جیسا ماحول بنا دیا گیا ہے اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاتل ہی جب منصف بن بیٹھے ہیں تو انصاف کیسے ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).