غیر ضروری شرم نقصان دہ ہے


ریسٹورانٹ میں بیٹھے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے ایک تیرہ چودہ برس کی لڑکی نے چاول ڈالے اور پلیٹ بے دھیانی میں میز کے بالکل کنارے پررکھ دی۔ اس سے پہلے کہ میں یا کوئی اور اسے خبردار کرتا۔ پلیٹ فرش پر جا گری۔ شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کے ساتھ اس کے ماں باپ اور بہن بھائی بھی بیٹھے تھے۔ کئی افراد نے مڑ کر دیکھا چند ایک ہنسے بھی۔ اگرچہ اس کے والدین نے اسے شرم کا احساس نہیں دلایا لیکن وہ اتنی شرمندہ نظر آ رہی تھی کہ اس سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا تھا۔

میں کوئی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات تو نہیں ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شرم کا ایسا احساس فائدہ مند ہے۔ اب وہ لڑکی کھانا کھانے کے دوران زیادہ محتاط رہے گی۔ بچپن میں بہت سی باتیں ہم احساسِ شرم سے ہی سیکھتے ہیں۔ بعض طلبہ اس لئے محنت کرتے ہیں کہ امتحان میں فیل ہونے پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ شرم و حیا کا عنصر انسان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن یہی شرم اگر غیر ضروری طور پر انسان خود پر مسلط کر لے تو نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر برسوں پہلے میرے ایک شاگرد نے امتحان میں ناکامی پر مختلف قسم کی تقریباً چالیس گولیاں نگل کر خود کشی کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے فوری طور پر ہسپتال لے جا کربچا لیا گیا لیکن اپنی طرف سے وہ خود کا خاتمہ کر چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس کی بنیادی وجہ بھی شرم ثابت ہوئی۔ وہ فیل ہونے پر شرم کی وجہ سے اپنے والدین کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔

عورت کی بات ہو تو شرم و حیا کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ عورتیں بھی اس زیور کو ہمیشہ پہنے رکھتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات ان کی غیر ضروری شرم ان کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب کسی بیماری کا معاملہ ہو۔ مثلاً بریسٹ میں کسی ٹیومر کے احساس یا نپل سے کسے سیال مادے کے بہنے کی صورت میں اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا ، اسے چھپائے رکھنا۔ ڈاکٹر سے بھی رجوع نہ کرنا۔ حالاں کہ یہ بریسٹ کینسر کی علامات ہوسکتی ہیں۔ ایسی عورتیں اس وقت اپنا مرض بتاتی ہیں جب کینسر تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے اور قابلِ علاج نہیں ہوتا۔

در اصل ہمارے معاشرے میں ابھی تک لوگ شرم و حیا کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ کوئی انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ شرم و حیا کا پہلو ہر انسان کے لئے لازمی ہے لیکن جہاں صحت اورتندرستی کی بات ہو وہاں شرم کے معانی بدل جاتے ہیں۔ بیماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے غیر ضروری شرم کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر شیخ کی ایک ایسی مریضہ جو برسوں سے ان کے پاس آ رہی تھی اس نے ایک بار اپنے پستان میں درد کی شکایت کی۔ ڈاکٹر نے جب پوچھا کہ یہ درد کب سے ہے تو جواب سن کر وہ حیران رہ گیا کیونکہ وہ تقریباً ڈیڑھ سال سے اس درد کو برداشت کر رہی تھی۔

اسی طرح جنسی اعضا کے حوالے سے کوئی بھی مرض ہو تو غیر ضروری شرم ڈاکٹر کو بتانے سے روکے رکھتی ہے۔ ظاہر اس کا نتیجہ خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ بعض عورتیں ڈاکٹر کو بتا نہیں پاتیں لیکن کسی پیر سے دم کروانے ضرور چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح کے ایک پیر کی کہانی ٹیلی ویژن کے کسی چینل پر نشر ہو چکی ہے۔ وہ پیر انڈہ پیر کہلاتا تھا اور ہر قسم کے مرض میں مبتلا عورتوں کا علاج انڈوں سے کرتا تھا۔

چینل کی ٹیم نے نقلی مریض اور خفیہ کیمروں کے ذریعے اسے بے نقاب کیا تھا۔ وہ عورتوں کے پیٹ اور بریسٹ پر انڈوں کا لیپ کر کے ان کا علاج کرتا تھا۔ بعد میں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔

یہ غیر ضروری شرم بعض مردوں کو بھی انہیں ان کے معالج کے پاس جانے سے روکتی ہے۔ اسی لئے آپ کو پاکستان میں جگہ جگہ پوشیدہ امراض کے ماہرین کے اشتہار نظر آتے ہیں۔ بہت سے نوجوان ان ماہرین کی تلاش میں سرگردں ہوتے ہیں اور پھر ان تک رسائی حاصل کر کے نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔

یہ غیر ضروری شرم نوجوانوں کو خود کشی تک بھی لے جا سکتی ہے۔ بعض اوقات کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو لڑکے یا لڑکی کے لئے باعثِ شرم ہو تو کسی کا سامنا کرنے کے بجائے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے بھی بچوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ آگہی ضروری ہے کہ ایسے کسی واقعے کی صورت میں موت کا سہارا لینے پر کسی اپنے کے سہارے کو ترجیح دینی چاہیئے۔ شرم ضروری ہے لیکن غیر ضروری شرم سے اجتناب کیجئے کیوں کہ یہ آپ کے لئے نہایت ضرررساں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).