لونڈے بازی سے “Gay” کی جانب بڑھتا معاشرہ


دنیا بھر میں جہاں آئے روز نئی اصلاحات جنم لے رہی ہیں ، وہی معاشرتی بے راہ روی کے تسلسل کو قائم رکھنے اور غیر فطری طریقوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے پرانے طریقے نئے دور کے مطابق نئے ناموں سے نہ صرف جاری ہیں بلکہ کل تک جن چیزوں کو برا سمجھا اور کہا جاتا تھا آجکل معاشرہ نہ صرف ایسی حرکات کو کسی حد تک قبول کر رہا ہے بلکہ نئی نسل اس کا کافی حد تک شکار بھی ہو رہی ہے، پاکستان میں 80 اور 90 کی دہائی میں لونڈے بازی عروج پررہی ، لیکن پھر ٹیلی ویژن چینل کی دوڑ سے معاشرہ کی سوچ بدلی ، لڑکوں کی طرف مائل ہونے والے اب صنف نازک کے خواب دیکھنے لگے، لیکن مسئلہ کچھ خاص حل نا ہوا ،اسکی سب سے بڑی وجہ رسائی کا نہ ہونا تھا، جہاں کہیں رسائی ممکن ہوئی وہاں پر اس راز کے افشا ہونے پر قتل و خونریزی کے واقعات شروع ہو گئے ، ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ تعلیم عام ہوئی تو بہت ساری سرگرمیوں کا رخ تبدیل ہو گیا ، وقت کی تیزی اور کمی نے حالات بدل دئیے، لونڈے بازی کی لت کا شکار نوجوان اب جنسی تسکین کیلئے لڑکے میسر نہ ہوئے تو ان لوگوں نے اب بچوں کی جانب اپنا رخ کیا ، قصور جیسے واقعات سارے پاکستان میں رونما ہوئے، پارلیمنٹرینز کی جانب سے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں گذشتہ برس جنسی زیادتی کے ہونے والے واقعات میں 40 فیصد لڑکوں اور 60 فیصد لڑکیوں سے ہوئے ۔

لیکن آج بات زیادتی کے واقعات کی نہیں ،جنسی بے راہ روی کا شکار افراد اور خاص طور پر Teenagersکی ہے، ہم جنس پرستی میں خواتین کا کردار تو کچھ زیادہ سامنے نہیں آتا لیکن مرد حضرات خاص کر نوجوان اس لت کا شکار ہو رہے ہیں، خود لذتی کا شکار یہ لڑکے ہم جنس پرستی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہم جنس پرستی مختلف جہتوں سے کی جاتی ہے ، یوں کہہ لیجئے ان کی مختلف اقسام ہیں ، ہر ہم جنس پرست کا رول ایک جیسا نہیں ہوتا ، ہم جنس پرستی میں سب سے بڑی تعداد TOPs کی ہے ، دوسرے نمبر پر Bottoms تیسرے نمبر پر Versatile اور پھر Bisexual آتے ہیں

پہلی قسم یعنی TOP وہ لڑکے یا مرد ہیں جو پورے پاکستانی میں تقریبا ہر جگہ پائے جاتے ہیں ، یہ لڑکوں سے جنسی تعلق صرف خود لذ ت حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں انکو صرف اوندھے منہ لیٹے ہی لڑکے پسند ہیں، جس کو کہا جاتا ہے بچہ بازی یہ ہیں وہ لوگ اب تو خیر بچہ بازی سے بات آگے نکل گئی ہے، اب تو ہر عمر کے افراد ان کو میسر ہوتے ہیں۔

دوسری قسم میں Bottom آتے ہیں یہ ہیں وہ لڑکے یا جوان جو پہلی قسم کیلئے سویٹ ڈش کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ ہمیشہ ہی SEX کروانا پسند کرتے ہیں ، انکی بھی کوئی خاص عمر نہیں ہوتی اس کو بیماری کہیں یا عادت جوبھی کہہ لیں یہ اس کا شکار ہیں، میں 50 برس سے زائد عمر کے مردوں کو بھی اس لت میں مبتلا پایا ہے اور تو اور نئی نسل کے لڑکے جو اس کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں غیر اخلاقی فلمیں دیکھ کر سب کچھ ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں جس کا شاید سوچ کر بھی عام انسان کو گھن آتی ہے ، زیادہ تعداد اس میں Teenagers کی ہے ، جب ان سے بات کی گئی کہ کیسا لگتا ہے عمل تو ملا جلا رجحان دیکھنے میں ملا، انکا کہنا تھا کہ شروع میں تو کافی تکلیف دہ عمل تھا لیکن وہ دوستی یاری میں کر گزرے لیکن اب عادت سی بن چکی ہے، کچھ اس سے دور ہونا چاہتے ہیں تو کچھ اس حد تک آگے نکل چکے کہ وہ الفاظ ہی نہیں کہ انکی کیفیت لکھی جا سکے،

تیسری کیٹگری ہے Versatile کی لوگ دونوں لذتیں لیتے ہیں، انکو تو بس مزہ چاہیے، لذت چاہیے خواہ کوئی انکی پشت پر سوار ہو یا یہ کسی اور کی پشت پر سوار ہوں، یہ عمل بھی زیادہ تر دوستوں میں دیکھنے کو ملا، سٹڈی کے ارادے سے جب کچھ لڑکے راتیں دوستوں کے گھروں میں گزارتے ہیں تو اکٹھے ہی سو جاتے ہیں جہاں انکو اس عمل کی شہ ملتی ہے،

چوتھی قسم ہے Bisexual کی یہ لوگ ویسے تو 80 فیصد صنف نازک کی طرف ہی آمادہ ہوتے ہیں لیکن جب کچھ میسر نہیں ہوتا تو لڑکوں کی پشت پر سوار ہونے سے بھی نہیں کتراتے، عام طور پر Gay ان کو قبول نہیں کرتے اور خاص طور پر Bottom، کیونکہ انکے خیال میں انکی توجہ خواتین کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور وہ ان کو صحیح پیار نہیں دے پاتے،

بات یہ ہے کہ معاشرہ میں ایک لفظ سے تبدیلی اتنی زیادہ رونما ہوئی ہے کہ کل تک جن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا آج انکو قبول کیا جا رہا ہے ، صرف 2 لفظ لے لیجئے ، پہلے کہا جاتا تھا اوئے ۔۔۔۔ اتنی ذلت اور حقارت کے ساتھ جبکہ اب جب کوئی خود کہتا ہے کہ میں Gay ہوں تو بس ایک بار دیکھا جاتا ہے اور پھر اوکے، بات وہی ہے لیکن صرف ایک انگریزی کے لفظ نے کیا کچھ قبول کروا لیا ، دوسرا لفظ ہے ۔۔۔  پہلے ایسے عورت کو کوٹھے والی یا اس سے برے القابات سے نوازا جاتا تھا اور اب وہ عمل کرنے والی جب خود کو Sex Worker کہتے ہے تو معاشرہ اسکو تقریبا قبول کرتا ہے ، اب معاشرہ چونکتا نہیں، یہ ہے الفاظ کا دھندہ۔

اسلام میں سب سے زیادہ گناہ خود لذتی کا ہے، دوسرے نمبر پر ہم جنسی پرستی، تیسرے نمبر پر جب کوئی شادی شدہ غیر شادی شدہ سے جسمانی تعلق قائم کرتا ہے اور آخر پر آتا ہے جب دو غیر شادی شدہ جنس مخالف کے انسان ایک دوسرے سے بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں ، اور جو سب سے کم درجہ کا گناہ ہے اس بارے میں بھی علماء کرام فرماتے ہیں کہ خداوند کریم 40 روز تک اس شخص کی جانب نظر رحمت نہیں فرماتے۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider