جمہوریت، اشرافیہ اور عوام


جمہوریت اور اشرافیہ کے درمیان معصوم اور مظلوم عوام کی سسکیوں اور آہوں کو دیکھتا ہوں تو استاد محترم جاوید لغمانی کا ایک شعر ”روں کہ ہنسوں سمجھ نہ آئے“ ذہن میں گھومتا رہتا ہے۔ عوام سے جمہوریت کے متعلق بات کرو تو جواب دیتے ہیں کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا۔ یہ سوال دراصل کئی سوالات جنم دیتا ہے۔ جن میں ایک سوال یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کو کیا دیا۔ یہی جمہوری نظام برطانیہ میں کچھ اور نتیجہ دے رہا ہے مگر پاکستان میں نا امیدی اور مایوسی ہی عوام کا مقدر ہے۔

جناب والا! جمہوریت میں عوام کا مقدر لکھا نہیں جاتا بلکہ عوام اپنا مقدر خود لکھتے ہیں تب ہی تو جمہوریت کہلاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام اپنا مقدر کیسے لکھتے ہیں؟ اس سوال کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھنے کا تعلق سے شعور سے ہوتا ہے۔ شعور انسان کو تعلیم سے ملتا ہے۔ ایسی تعلیم جو تنقیدی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور سوالات اٹھانے پر مجبور کرے۔ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں سوالات نہیں اٹھائے جاتے، سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر ہر دس سال بعد دوبارہ ابتدا سے شروع کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ جمہوری نظام عوام کی حکومت کا نام ہے۔ جس میں آزادی رائے، اختلاف رائے۔ طبقاتی نظام کا خاتمہ، انسانی مساوات اور حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔

مگر ہمارے معاشرے میں جمہوریت برادری ازم نیشنلزم اور شخصیت پرستی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرنے سے لے کر کسی بھی لوکل حمام کی لوکل اخبار سے اپنے پسندیدہ چینل کو دیکھنے کا نام جمہوریت ہے۔ باقی جمہوریت کا سمجھنا یا سیاسی فرض کی ادائیگی کا تعلق وہ تو کسی مسیحا، حمینی یا ہر دس سال بعد کسی نئے لیڈر سے آس رکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کیوں اپنی جڑیں مضبوط نہ کر سکی اس کی وجہ آصف حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں کی جمہوریت کو اشرافیہ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔

پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں کل چھ قسم کی اشرافیہ ہیں۔ جو سیاست پر مختلف طریقوں سے اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جن میں ملٹری اشرافیہ، جاگیردار پروفیشنل، انڈسٹریلسٹ اور بیوروکریٹ اشرافیہ ہیں۔ یہ بات یہاں پر عیاں ہوتی ہے کہ جمہوری نظام مساوات کا نام ہے۔ جس جمہوری نظام میں اشرافیہ ہوگی وہاں اختلافات رائے پر پابندی، حقوق کی پامالی اور ہرطرح کا استحصال ضرور ہوگا۔

یہ استحصال اشرافیہ مختلف طریقوں سے کرتی ہے۔ مثلا، تعلیمی پالیسیاں تو بنائے گی مگر تعلیمی نظام کو طبقاتی حیثیت سے دیکھے گی۔ انگریزی اردو میں تعلیم۔ نصابی کتب کا غیر افعالی نصاب۔ کلاس ادنیٰ سے لے کر ماسٹر ڈگری تک جمہوریت جمہوریت طوطے کی طرح رٹیا تو جاتا ہے مگر جمہوری نظام کسے کہتے ہیں یہ کسی بھی کتاب میں نہیں ہوگا۔ اسی لئے ہمارے ہاں متضاد اور رنگ برنگی جمہوریت نظر آتی ہے۔ کبھی یہ جمہوری نظام اسلام سے نکالا جاتا ہے تو کبھی پنجاب کے کسی جاگیردار یا انڈسٹریلسٹ کی شکل میں یا پھر جی ایچ کیو سے ماخوذ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح یہ اشرافیہ دوسرے مختلف من گھڑت نظریات سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ مثلا برادری ازم : برادری ازم کے نام پر سیاست تو کریں گے مگر کبھی ازم کے اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ طبقاتی نظام اور ازم ختم کرنے کے لئے تعلیم ضروری ہے۔ تعلیم شعور دے گی اور معاشرہ میں نا انصافی اور حقوق کی بات کی جائے گی۔

ان موضوعات پر بات ہوئی تو یہ اشرافیہ خود بخود ختم ہونے نے لگ جائے گی۔ اسی طرح عسکری اشرافیہ ہر آٹھ یا دس سال بعد اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور تو سنبھالتی ہے مگر کبھی مذہب اور اپنی ہی تخلیق کی ہوئی جمہوریت میں دوسرے اشرافیہ سے گٹھ جوڑ کر دیتی ہے۔ اس کی مثال ایوب دور میں جاگیرداروں کی مسلم لیگ، ضیاء الحق دور میں مذہبی اشرافیہ اور مشرف دور میں ان تینوں کا اتحاد پاکستان میں جمہوریت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

جہاں تک بات مذہبی اشرافیہ کی ہے یہ طبقہ اگر حکومت میں ہے تو ہر طرف اسلام کا بول بالا ہے۔ مساوات اور انصاف ہے مگر جونہی اقتدار گیا۔ معاشرہ میں سیکولر، مذہب دشمن اور مغربی طاقتوں کی سازشیں انہیں نظر آتی ہیں۔ مگر جمہوریت کے یہ سارے چیمپئن مساوات، انصاف، حقوق اور جواب دھی کی بات کوئی بھی نہیں کرے گا۔ اگر کوئی دانشور انصاف، حقوق کی بات کرے۔ تو یہ سب مل کر اس کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبا دیتے ہیں جن میں سنسرشپ کا لگا دینا۔ کافر کا فتوی دے دینا۔ وطن عزیز سے غداری یا پھر آج کل جو نئے طریقے رائج ہیں، مخالف کی دلیل کو گالی سے جواب دیا جاتا ہے۔

اس ساری دھند میں اصل جمہوریت۔ تو جناب والا اصل جمہوریت عوام لاتی ہے نہ کہ کوئی لیڈر یا اشرفیہ۔ جمہوریت ہمیشہ عوام سے سسٹم کو جاتی ہے۔ نا کے سسٹم سے عوام کو۔ تو لہٰذا اس سوال پر سوچنے کہ بجائے کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا۔ اس سوال پر سوچنا چاہیے کہ ہم نے جمہوریت کو کیا دیا۔ اس سوال پر اسی طرح سوچنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم لوگ اپنی دوسری ضروریات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کیونکہ جمہوریت نام ہی انسانی مساوات، انسانی حقوق اور اختلاف رائے کا ہے۔ اور اس لیے بھی کیونکہ جمہوریت نام ہی عوام کی حکومت کا ہے۔ نہ کسی لیڈر یا اشرفیہ، یا متضاد نعروں کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).