تیرہویں برج والے اور مثبت خبر کا جال


ادھر تعلیم مکمل ہوئی، ادھر کام سے لگے، چند ماہ بعد شادی ہو گئی۔ نوجوانی کے دن تھے۔ دو تین برس اور گزرے۔ اب بھی نوجوانی ہی تھی پر بیٹا گود میں کھیلتا تھا۔ آج کے دن تو بالوں میں بہت چاندی اتر آئی پر ایک طویل دور ایسا تھا کہ اپنی عمر سے کافی کم دکھتے تھے۔ انہی دنوں میں سے ایک دن ایک دوست کراچی سے لاہور وارد ہوئے۔ شام کو ملاقات طے ہوئی۔ صاحب ایک پنج ستارہ ہوٹل میں براجمان تھے۔ پہنچے، کچھ گپ شپ رہی۔

کھانے کے لیے اسی ہوٹل کے ایک ریستوران کا رخ کیا۔ کھانا کھا کر نکلے تو سامنے ہی ایک اعلامیہ جگمگا رہا تھا جس کے مطابق اس دور کے ایک مشہور منجم اور دست شناس، عرف عام میں ٹو ان ون، جو اپنے نام سے پہلے پروفیسر لکھا کرتے تھے، ہوٹل میں فروکش تھے اور ایک خطیر رقم کے عوض لوگوں کو رات گیارہ بجے تک قسمت کا حال بتانے پر مامور تھے۔ ہمارے دوست ایک اعلی پائے کے توہم پرست تھے۔ مچل گئے کہ چلو قسمت کا حال پوچھتے ہیں۔ درویش کی لاعلمی کا دور تھا پر ان سب کو تب بھی لغویات کے ذیل میں ہی رکھتا تھا۔ کچھ دیر اصرار اور انکار چلتا رہا پھر دوست کی خاطر ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وجہ شاید یہ بنی کہ میری فیس بھی وہ دینے کو تیار تھے۔

پروفیسر صاحب کے در پر پہنچے۔ ان کے سیکرٹری کو دو لوگوں کی فیس ادا کی۔ کچھ دیر میں باری آئی تو ہم اکٹھے ہی ان کے برابر جا براجمان ہوئے۔ پہلی باری میری تھی۔ حضرت نے آٹھ دس سوال کیے۔ تاریخ پیدائش، وقت پیدائش، والدہ کا نام، والد کا نام، جائے پیدائش اور اسی طرح کی اور معلومات۔ اس کے بعد ایک کاغذ پر کچھ لکیریں دائیں سے بائیں کھینچیں، کچھ بائیں سے دائیں، اس کے اوپر ایک مومی کاغذ جس پر پہلے سے کچھ اشکال چھپی تھیں۔ اس کے اوپر پھیلا دیا گیا۔ پھر میری ہتھیلیوں کا محدب عدسے سے معائنہ کر کے صاحب نے ایک گہری سانس لی اور کہا ”پوچھیے، کیا پوچھنا چاہتے ہیں“

پتہ نہیں کس پینک میں ایک شرارت کی جوت جاگ گئی۔ میں آگے جھکا اور دھیمی آواز میں پوچھا

”سر، یہ بتائیے۔ میری شادی کب ہوگی؟ “
پروفیسر صاحب مسکرائے ”آپ نوجوانوں کو شادی کی بہت فکر ہے، ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو پڑھائی شڑھائی مکمل کریں“

میرا دوست کچھ بولنے کو ہی تھا کہ میں نے ٹھوکر مار کر اس کو خاموش کیا اور کہا ”سر، سب کچھ کر لیں گے، پر بتائیے تو سہی اور یہ بھی کہ جہاں میں چاہتا ہوں وہاں شادی ہو گی یا نہیں“

پروفیسر صاحب مزید مسکرائے۔ غالبا وہ ایسے اشتیاق بھرے استفسارات کے عادی تھے۔ جھک کر میرے زائچے پر ایک نظر ڈالی پھر میرے ابھی تک پھیلے ہوئے ہاتھوں پر۔ مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے چہرے پر جگہ لے لی۔ کہنے لگے

”دیکھو بیٹا۔ ابھی کم ازکم پانچ سے چھ سال تو شادی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ جسے تم اب پسند کرتے ہو اس سے شادی کی راہ میں بہت مشکل حائل ہے۔ یہاں شادی نہیں ہو سکے گی۔ شادی پسند کی نہیں ہو گی لیکن کامیاب ہو گی۔ اس لیے انتظار کرو اور اللہ سے اچھی امید رکھو“

پروفیسر صاحب والی مسکراہٹ اب میرے دوست کے چہرے پر منتقل ہو گئی تھی پر اس میں خجالت کی ایک جھلک تھی۔

قصہ مختصر اسی طرح کے دو تین سوال میں نے نوکری، اولاد اور مال و دولت کے حوالے سے کیے۔ اور ان سب کے جواب پروفیسر صاحب نے انتہائی خوش اسلوبی سے مکمل طور پر غلط دیے۔ ان کا سارا دھندہ شاید مردم شناسی یا چہرہ شناسی پر منحصر تھا اور میرے معاملے میں وہ دھوکہ کھا گئے۔ پروفیسر صاحب کو شرمندہ کرنا مقصود نہ تھا۔ دوست کو آئینہ دکھانے کی تمنا تھی سو وہ پوری ہوئی۔ سیشن کے بعد نکلے تو دوست کا اعتبار بھی علم النجوم سے کسی حد تک اٹھ چلا تھا۔

برسوں ایسے ہی تماشے دیکھے۔ پھر میڈیا میں یہ توہم پرستی در آئی۔ کرکٹ میچ پر پروگرام ہو، سیاست کی رزم گاہ ہو یا معیشت کے اشاریے۔ ہر موضوع پر ایک ماموں اور کچھ خالائیں رائے لیے ٹی وی سکرین پر براجمان ہو گئیں۔ دھندہ گڑھی شاہو اور بھاٹی دروازے کی بوسیدہ دیواروں پر لگے پوسٹرز سے ہٹ کر اب چمکتے دمکتے ٹی وی پروموز میں بدل گیا تھا۔ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کے ایسے ایسے قتیل دیکھنے کو ملے کہ آنکھوں کو یقین نہ آیا۔ یہ یقین البتہ آ گیا کہ بہت سے لوگوں کا تعلیم، تجربہ اور مشاہدہ بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ ذرا سی پرت اتارو تو اندر سے پتھر کے زمانے کی ڈری سہمی، مظاہر فطرت سے مرعوب، نئے خداؤں کی متلاشی ایک ایسی مخلوق برآمد ہوتی ہے جو اب بھی باشعور انسان نہیں بن سکی۔

دست شناسی کی ساری بنیاد ہاتھ کی ان لکیروں پر ہے جو ارتقا کے عمل کا ایک مظہر اور قدرتی انتخاب کی ایک کڑی ہیں۔ یہ لکیریں چمپینزی کے ہاتھ میں بھی ہوتی ہیں اور انسان کے ہاتھ میں بھی۔ پر کوئی اس غریب کے نہ دل کا حال بتاتا ہے اور نہ ہی اس کے مال و دولت کی خبر دیتا ہے۔ ہاتھوں سے گرفت کر پانے والے جانوروں میں ہاتھ کی یہ لکیریں سائنس کی زبان میں Palmer Flexion Creases کہلاتی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ جب ہاتھ کسی چیز پر گرفت کرے۔ ہاتھ کھولے یا بند کرے، قلم پکڑے، کوئی پھل تھامے یا محض مکا ہی بنائے تو ہاتھ کی کھال اس دوران اسی حساب سے کھنچ سکے اور پھر اپنی جگہ پر آ سکے پر ہم نے اسے لوح محفوظ کا پرتو سمجھ لیا۔

علم النجوم اپنی اصل میں اس سے بھی مضحکہ خیز ہے۔ قدیم انسان بنیادی طور پر توہم پرست تھا۔ مظاہر فطرت سے اس کی سائنسی قربت نہیں تھی لہذا وہ روز ان کے نئے معنی تراشتا تھا۔ ہومو سیپئینز نے جب خاندان اور قبیلہ بنانا سیکھا تو اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی طبقات بھی وجود میں آتے گئے۔ طاقتور افراد نے حکمرانی کا منصب سنبھالا تو زیرک لوگوں نے انہیں اور دوسروں کو بھی قابو میں رکھنے کے لیے توہم پرستی کا کارخانہ ایجاد کر ڈالا۔

مذاہب کی تخلیق شروع ہوئی۔ پیشوائی اور شامانی کے منصب بن گئے۔ پھر پیش گوئیوں کا کاروبار شروع ہوا۔ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کاروبار کو مزید ترتیب دینے کی کوشش میں ایسی روایات فروغ پائیں جو آج سوڈوسائنس کہلاتی ہیں۔ سوال اٹھے کہ پیش گوئیوں کا ماخذ کیا ہے اور ان کے جواب میں ایک پوری داستان تخلیق ہوگئی۔

بین النہرین تاریخ کے بابلی عہد میں کوئی چار سو سال قبل مسیح علم فلکیات نے جنم لیا۔ قریبا دو صدیاں علم فلکیات اور علم النجوم ایک دوسرے میں پیوست رہے اور پھر یہ دو الگ راستوں پر چل نکلے۔ ایک سائنس بنی اور دوسری نری سوڈوسائنس رہ گئی۔ آغاز میں یہ علم رہنمائی کی ذیل میں رہا لیکن جلد ہی پیشواؤں اور شامانوں نے علم تاثیر ایجاد کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ آسمانی مظاہر کا مطالعہ موسموں کی پرکھ اور سمتوں کے تعین کے لیے سائنسی طریق پر استوار رہا پر اس سے واقعات، جنگیں، پادشاہی اور پھر انسانوں کے رویے جوڑ کر اسے ایک غیر سائنسی سمت میں موڑ دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad