تیرہویں برج والے اور مثبت خبر کا جال


علم النجوم کا مطالعہ کریں تو دو بڑے دل چسپ حقائق کا پتہ لگتا ہے جس سے اس ساری کہانی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بابلی عہد کے فلکیات دان صرف پانچ سیاروں سے آگاہ تھے اس لیے علم النجوم میں پانچ سیارے رہنما قرار پائے۔ بعد میں تین چار سیارے اور نکل آئے تو حساب تلپٹ ہو گیا اور کہانی کو ازسرنو ترتیب دینا پڑا۔ دوسری حقیقت اس سے بھی دل چسپ ہے۔ برجوں کے تعین کے لیے زمین اور سورج کی سمت کے اعتبار سے ستاروں کے جو جھرمٹ ملے، وہ تیرہ تھے پر سورج کی تین سو ساٹھ درجے میں دائروی حرکت کو تیرہ برابر حصوں میں بانٹنا ممکن نہیں تھا اس لیے ایک برج کو سرے سے ہی غائب کر دیا گیا۔

اب آپ اسے حکومتی سازش کہہ لیں۔ فلکیات دانوں کا دھوکا یا پھر حساب کتاب کی غلطی پر اگر برجوں کی تقسیم کو مان بھی لیا جائے تو یہ سارے ہاروسکوپ، یہ ساری پیش گوئیاں ایک غلط تقسیم یا غلط تفہیم کی مرہون ہیں نہ کہ ستاروں کے جھرمٹ کے صحیح تعین کی۔ یہ تیرہواں برج افیکئیس کہلاتا ہے۔ اگر آپ 29 نومبر سے سترہ دسمبر کے بیچ پیدا ہوئے ہیں تو آپ کی قسمت کا حال کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ منجم اس برج کو فہرست میں ڈالنا شعوری یا لاشعوری طور پر بھول گئے تھے۔ اور یہ بھی کہ آپ کو غلط بتایا گیا کہ آپ برج قوس میں ہیں۔ اب یہ کیا تماشا ہے۔ یہ بھی سن لیجیے۔

دو تین برس پہلے ناسا نے علم النجوم پر ایک کاری ضرب لگاتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ڈھائی تین ہزار سال میں زمین کی محوری جنبش کے باعث اب آسمان وہ آسمان نہیں جو اس وقت تھا۔ سارے جھرمٹ اور برج اپنی جگہ تبدیل کر چکے ہیں اور نہ ہی سورج ہر جھرمٹ کے آگے یعنی ہر برج میں برابر وقت گزارتا ہے جیسا کہ علم النجوم میں دعوی ہے کہ ہر بوج کے لیے ایک ماہ مخصوص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈھائی ہزار سال سے برجوں کا تعین ہی غلط ہے۔

مثال کے طور پر علم النجوم میں برج سنبلہ کا دورانیہ 23 اگست سے 23 ستمبر ہے یعنی بتیس دن لیکن دراصل یہ دورانیہ جس میں سورج اس برج میں ہوتا ہے وہ 16 ستمبر سے 30 اکتوبر کا وقت ہے یعنی 45 دن۔ اسی طرح برج عقرب میں یہ دورانیہ 24 اکتوبر سے 22 نومبر بتایا جاتا ہے یعنی 30 دن جبکہ دراصل یہ دورانیہ 23 نومبر سے 29 نومبر ہے یعنی محض 7 دن۔ اس کی وجہ سورج کی غیر متناسب حرکت تو ہے ہی پر وہی تیرہواں برج، وہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ خود دیکھ لیجیے کتنا بڑا دھوکہ چل رہا ہے۔

ایک اور تماشا یہ بھی ہے کہ ہندی، چینی اور مغربی علم النجوم اپنے اپنے طریقے سے نتیجے نکالتا ہے جو اکثر اوقات ایک دوسرے کے متضاد کھڑے نظر آتے ہیں۔ سائنس میں جغرافیہ اور قومیت در آئے تو پھر اسے سائنس کیسے کہیں۔ آفاقی کیسے مانیں۔

آج علم فلکیات ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ ستارے جن پر یہ ساری عمارت کھڑی ہے ہم سے کئی ہزار، کئی لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان ستاروں کو فنا ہوئے لاکھوں سال گزر چکے ہوں۔ پر ہم ڈھائی ہزار سال سے یہ مانتے ہیں کہ ان کی وہ گردش جو شاید کب کی کسی بلیک ہول کے گھاٹ اتر چکی ہے ہمارے مستقبل کا، ہمارے رویوں کا، ہماری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا تعین کرتی ہے۔ ڈھائی ہزار سال بعد بھی اتنی کامل حماقت کا اسیر ہونا شاید یہ بتاتا ہے کہ ہمارا ذہنی ارتقاء بے حد خام ہے۔

آج تک کنٹرولڈ ماحول میں کیا گیا ایک تجربہ بھی علم النجوم (یہ علم کا لفظ استعمال تو کر رہا ہوں پر بھاری دل سے۔ زبان کی مجبوری ہے ) کی حقانیت کو ثابت نہیں کر سکا۔ 1985 میں کیا گیا ایک مشہور تجربہ جو شان کارلسن تجربہ کہلاتا ہے، یہی ثابت کر سکا کہ علم النجوم کی پیش گوئی ایک اندازے سے زیادہ کچھ نہین۔ اس تجربے میں 28 علم النجوم کے پائے کے ماہر شریک تھے۔ تجربے کے نتائج نیچر نامی جریدے میں شایع ہوئے۔ تجربے کے تمام ضوابط نجومیوں کی مرضی سے طے کیے گئے پر افسوس نتائج ان کی مرضی کے نہ نکلے۔

ایک سابق ماہر نجوم جیوفری ڈین کے ایک مشہور تجربے میں 45 نجومی اور 160 معمول یا ٹیسٹ سبجیکٹ شریک ہوئے۔ نتیجہ پھر یہی نکلا کہ علم النجوم محض اٹکل پچو ہے۔ ایک اور تجزیے میں 700 نجومیوں کو دعوت دی گئی اور تین سو شرکاء کے ساتھ ساتھ 1000 زائچے بھی ان کے حوالے کیے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ ایک بلائنڈ ٹیسٹ میں زائچوں کو شرکاء کے حوالے سے ترتیب دیں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس کے بعد ڈیوڈ ووس نے انگلستان میں ایک تحقیق میں 2 کروڑ کیسز کا مطالعہ کیا تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ کیا ستاروں کی چال کا شادی ہونے یا نہ ہونے جیسے معاملات سے کوئی تعلق ہے۔ پتہ لگا کہ ایسا کوئی تعلق موجود نہیں ہے۔ لیجیے، مجھے پروفیسر صاحب پھر یاد آ گئے۔

آپ خود سوچیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک برج میں موجود ساٹھ ستر کروڑ لوگ ایک جیسی خصوصیات کے حامل ہوں۔ ان کا اگلا دن ایک جیسی خبر لے کر طلوع ہو۔ ان کی زندگی ایک ہی طریق پر چلے۔ سب زاہد ہوں یا سب رند بادہ خوار ہوں۔ سب عابد ہوں یا سب فاسق ہوں۔ سب معصوم ہوں یا سب مجرم ہوں۔ وہ ستارے جو جانے ہیں بھی یا نہیں وہ آپ کی زندگی کی راہ کا تعین کریں۔ جنگوں کی فتوحات یا شکست میں کردار ادا کریں۔ کھیل کے میدان میں کامرانی یا ناکامی کا فیصلہ کریں۔

تاج وتخت کو لوگوں کے بیچ گردش دیں۔ یہ ادنی ترین درجے میں بھی قرین قیاس نہیں پر اپنے مستقبل سے لاعلم، صدیوں کے ارتقائی توہم پرستی کا شکار اور یقین اور بے یقینی کے بیچ جھونجتا یہ انسان سب جانتے ہوئے بھی ان تنکا تنکا سہاروں میں اپنی امید ڈھونڈتا ہے۔ کیوں؟ یہ مبہم، آدھی ادھوری، نیم دروں نیم بروں قسم کی پیش گوئیاں کرنے والے کیسے ہماری عقل کو مسخر کر لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں سے لے کر ہمارے جیسے معاشرے تک یہ سودا کیونکر بکتا ہے۔

جواب مشکل نہیں ہے۔ لوگ کسی بھی وہم میں کیوں یقین رکھتے ہیں؟ یہ نفسیات کا کھیل ہے۔ ہم اپنے مستقبل کے اندھیرے سے ہمہ وقت ڈرتے ہیں۔ ہر وقت کسی ایسی خبر کی کھوج میں رہتے ہیں جو مستقبل پر پڑے پردے میں کوئی درز بنا سکے۔ عقل پر بھروسہ کرنے والا معلومات کھوجتا ہے۔ عقل پر مکمل یقین نہ رکھنے والا، نادیدہ قوتوں کا قائل ایک ذہن جسے اسی سمت میں سدھایا گیا ہو۔ ایک اور نفسیاتی جال میں الجھ جاتا ہے۔ دنیا میں عقیدہ در عقیدہ بٹے لوگ، آسمان کی طرف تکتے لوگ، دعا کو عمل سے بہتر جانتے لوگ اس بات کا نشان ہیں کہ اب بھی اکثریت ان کی ہے جن کی آنکھیں کھلی ہیں پر ذہن بند ہیں۔ سو یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھ کی لکیروں میں قسمت ڈھونڈتے ہیں، ستاروں کی چال میں مستقبل۔ سنانے والے انہیں مستقبل قریب اور مستقبل بعید کی مثبت خبروں کے جال میں گھیرے رکھتے ہیں۔ اب آپ کس گروہ میں ہیں، خود سوچ لیجیے، خبر سننا چاہتے ہیں یا بس مثبت خبر سننا چاہتے ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ آخر میں آپ تیرہویں برج میں پائے جائیں جن کا حال بھی نامعلوم ہے، مستقبل بھی۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad