عقل مند مرد، عقل کے ہاتھوں مارا جاتا ہے


آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کم عقل مند اور ذرا بے وقوف مردوں کی زندگی مزے میں ہوتی ہے۔ ان کے آس پاس والے اکثر ان سے خوش نظر آتے ہیں۔ یہ اپنے ازدواجی اور محبوبائی معاملات میں بھی خوش نصیب ٹھہرتے ہیں۔ ان کی زوجہ اور محبوبہ ان سے خوش ہوتی ہیں۔ ان مردوں کو عورتوں والے لطائف بھی نہیں آتے کہ وہ گفتگو میں ان کا سہارا لے کر گفتگو کو چسکے دار بنا سکیں۔ زندگی ان کے لئے جنت نظیر نا بھی ہو تو جنت قریب ہوتی ہے۔

عورت کے جذبات کا حل مرد کی عقل سے کبھی برآمد نہیں ہو تا۔ عقل کے شدید استعمال سے اکثر صورت حال خراب ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ سوال بھی آپ کا اپنا ہوتا ہے، جواب بھی اپنا۔ عقل کے استعمال سے حکومتیں اور ادارے تو چل سکتے ہیں۔ گھر اور گھرانے نہیں۔ ان کو چلانے کے لئے محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے ساتھ اندھی لگا کر، اس لفظ کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

مشاہدہ آوارہ بتاتا ہے کہ شدید عقل کے استعمال سے تو حکومتیں اور ادارے بھی نہیں چل پاتے۔ ان میں بھی نسائی نخرہ موجود ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے جب ان پہ عقل کا بوجھ ڈالا جاتا ہے تو یہ پھسل پڑتے ہیں۔ کچھ تو بلک پڑتے ہیں۔ کیونکہ بجٹ چیخ اٹھتا ہے۔ خبر بریک ہو جاتی ہے۔ اور یہ نگوڑی عقل عشق مشک کی طرح چھپائے نہیں چھپتی۔

پچھلے دنوں کسی دانا نے کیا خوب بات کہہ دی کہ ملک کو محبوبہ سمجھو۔ سب سنجیدہ ہی ہو گئے۔ حالانکہ دانا کے اقوال عوام کے لئے کب ہوا کرتے ہیں۔ مگر ہم سب خود کو خواص میں شمار کرتے ہیں۔ بس ملک کو محبوبہ سمجھ کر ایسا ایسا پیار نچھاور کرنے لگے کہ محبوبہ نے محبوبیت سے توبہ کرنے کی ٹھان لی۔

نسائیت کے جذبات کا حل کبھی مرد کی عقل سے برآمد نہیں ہوا۔ مگر پھر کسی عقل مند کی آوازنے معیشت کو سہارا دینے کا حل نکالا۔ اوراس کو سمجھ بھی نہیں آیا کہ وہ جو کہنے جا رہا ہے۔ اس کو دانا نہیں سن رہے۔ اس قانو ن کو بھی باطل ہونے کے لئے نافذ کر دیا گیا۔

پھر کسی دانا نے کوئی عقل مندی کی بات کہہ دی اور ملک میں نفسیات کا قانون نافذ کرنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ سب مثبت سوچیں گے تو بے شک کو ئی نہ کوئی معاشی حل ضرور نکل آئے گا۔ جو کام بڑی بڑی ڈگریاں اور سیاسی تجربے و ناتجربہ کاری نہیں کر سکے، یقیناً مثبت سوچ کر دے گی۔ مگر اس کے لئے بجٹ کہاں سے آئے گا۔ ڈالر کا ریٹ کیسے کنٹرول ہو گا۔ ٹیکس کے جنگی قوانین سے کیسے نجات ملے گی؟

عقل مندی کا تقاضا پھر یہی ہو گا کہ ٹیکس مزید بڑھا دیا جائے۔ مگر ٹیکس ادا کرنے والے ٹیکس ادا کہاں سے کریں گے۔ اگر کمائیں گے ہی نہیں۔ قوت خرید کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ زندگی محدود افراد کا شوق بن جائے گی۔ زندگی نایاب ہو جائے گی۔

تو میرے ’سویٹ ہارٹ‘ عقل مندو: ’ملک کو محبوبہ‘ نہ سمجھو۔ یہ ’ماں‘ تھی۔ ’ماں‘ ہی ہے۔ جس کے ساتھ اولاد والا سلوک نہ کیا جائے تو اس کی زندگی بے معانی ہو جاتی ہے۔

(’سویٹ ہارٹ‘ میرا ایک افسانہ ہے جس میں ایک عقل مند اپنی محبوبائیں بدلتا رہتا ہے۔ جیسے ہمارے سیاست دان پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).