تاریخی حقائق اور ذہنی افیون میں فرق


ترقی کرنے والی قومیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں اور تنزل کا شکار اقوام ہمیشہ اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں کے سر تھوپ کر اپنی ذہنی تسلی کا سامان پیدا کرتی ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتیں۔ مورخہ 2 دسمبر 2018کے روزنامہ نوائے وقت میں مکرم ظفر علی راجہ صاحب کا ایک کالم ‘ شمشیر ِ بےزنہار ۔ علامہ مشرقی اور قائد ِ اعظم ‘کے نام سے شائع ہوا۔ اس کالم میں فریدہ جبین سعدی صاحبہ کی کتاب ‘شمشیر ِ بے زنہار ‘ کے بعض حصوں کو درج کیا گیا ہے۔ اس کالم کا عنوان دیکھ کر گماں گذرتا ہے کہ شاید علامہ مشرقی اور قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی سیاست اور آپس کے تعلقات کے متعلق کچھ لکھا ہوگا۔ لیکن بد نصیبی سے کچھ احباب کا کالم یا کتاب مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ ‘ قادیانیوں’ کو کسی نہ کسی چیز کا الزام نہ دے دیں ۔ یقینی طور پر پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑ ا سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی ۔ اس کالم میں اس سانحہ کا ذمہ دار ‘ قادیانیوں ‘ کو خاص طور پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، ڈاکٹر عبد السلام ، اور ایم ایم احمد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اور اس باسی دال میں یہ لکھ کر ‘تڑکا’ لگایا گیا ہے کہ قادیانی یہ سب کچھ اسرائیل کے اشارے پر کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت کیا دیا گیا ہے؟ فریدہ جبیں سعدی صاحبہ نے اپنی کتاب میں لکھ دیا اور ہم اتنے بھولے کہ یقین کر بیٹھے۔

ظفر علی راجہ صاحب نے شاید یہ سنسنی خیز انکشاف اب پڑھا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام  1974 میں قومی اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی میں بھی لگایا گیا تھا جس میں جماعتِ احمدیہ کے متعلق کارروائی ہو رہی تھی۔ اور الزام لگانے والے پاکستان کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب تھے۔ 7 اگست 1974 کی کارروائی کے دوران انہوں نے یہ الزام لگایا اور دلیل کے طور پر ایک انگریزی جریدہ کا طویل حوالہ پڑھنا شروع کیا۔ جریدہ کا نام  Impactتھا اور یہ 27جون 1974 کا حوالہ تھا۔ امام جماعت ِ احمدیہ نے اس حوالے کے بارے میں سوال کیا “Who is the writer?”یعنی اس تحریر کو لکھنے والا کون ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے کمال قول سدید سے فرمایا “I really do not know.” یعنی حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ اگلا سوال کیا گیا۔ ‘What is the standing of this publication’  یعنی اس جریدہ کی حیثیت کیا ہے؟چونکہ یہ ایک غیر معروف نام تھا اس لیے اس سوال کی ضرورت پیش آئی۔ اس سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب ایک بار پھر نہایت بے نفسی سے فرمایا May be nothing at all, Sir یعنی جناب شاید اس کی وقعت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تھا وہ عظیم ثبوت جو کہ اٹارنی جنرل صاحب قومی اسمبلی کے روبرو پیش فرما رہے تھے۔

(Proceedings of the special Committee of the whole House Held In Camera To Consider The Qadiani Issue. 7th August 1974. p364-370)

شاید اٹارنی جنرل صاحب کا خیال تھا کہ جو چیز انگریزی میں لکھی ہو ضرور درست ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ظفر علی راجہ صاحب کا خیال ہے جو الزام کسی کتاب میں چھپ جائے وہ ضرور صحیح ہوتا ہے۔ لیکن ہم ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں کیا اب ظفر علی راجہ صاحب اور 1974 میں یحییٰ بختیار صاحب یہ نہیں جانتے کہ ابھی مشرقی پاکستان میں شکست کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک کمیشن قائم کیا گیا تاکہ وہ اس سانحہ کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے۔ اس کمیشن کی سربراہی پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن صاحب کر رہے تھے۔ اس کمیشن نے تمام واقعات کی تحقیق کر کے 8جولائی 1972 کو اپنی رپورٹ حکومت کے حوالے کر دی تھی ۔ یعنی اسمبلی کی اس کمیٹی کے کام شروع کرنے سے دو سال قبل حکومت کے پاس یہ رپورٹ پہنچ چکی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا۔ اور اٹارنی جنرل صاحب جس حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے وہ بخوبی جانتی تھی کہ مجرم کون کون تھا؟مگر حکومت نے اس وقت یہ رپورٹ شائع نہیں کی اور اسمبلی میں جماعت ِ احمدیہ پر الزام لگا دیا ۔

اب ہم رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس میں یہ لکھا ہے کہ احمدی اس ملک کو دو لخت کرنے کے ذمہ دار تھے؟ ہرگز نہیں ۔ اس رپورٹ میں کہیں جماعت ِ احمدیہ پر یہ مضحکہ خیز الزام نہیں لگایا گیا۔ اس رپورٹ میں اس سانحہ کا سب سے زیادہ ذمہ دار اس وقت کی حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل یحییٰ خان صاحب اور ان کے ساتھی جرنیلوں کو قرار دیا تھا۔ اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ ہماری ظفر علی راجہ صاحب سے گذارش ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے آخر میں ان لوگوں کی فہرست ہے جو اس سانحہ کے ذمہ دار تھے۔ ان میں سے ایک بھی احمدی نہیں تھا۔ اس رپورٹ کی اشاعت سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ یہ الزام غلط تھا۔ البتہ اس وقت فوج میں اور سویلین عہدوں پر بعض احمدی ضرور موجود تھے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے بارے میں اس رپورٹ میں کیا لکھا ہوا ہے۔

جماعت ِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے جنرل یعنی میجر جنرل افتخار خان جنجوعہ صاحب کا تعلق تھا تو یہ پاکستان کی تاریخ کے واحد جنرل تھے جنہوں نے دورانِ جنگ 9 دسمبر 1971 کو چھمب کے محاز پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کے سوا کسی اور جرنیل کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ اس رپورٹ سے یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس جنگ کے دوران ان میں سے اکثر اس سعادت کے لیے مشتاق بھی نہیں تھے۔ حمود الرحمن رپورٹ میں جہاں باقی اکثر جرنیلوں پر شدید تنقید کی گئی ہے اور انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے وہاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کے متعلق اس رپورٹ میں A capable and bold commander کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اور کسی جرنیل کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ ہاں ان کی کارکردگی کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ باقی جرنیلوں پر یہ تنقید کی گئی کہ وہ لڑنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے انہوں نے موجود وسائل کا بھی صحیح استعمال نہیں کیا، اپنے فرائض چھوڑ کر چلے گئے وہاں جنرل افتخار جنجوعہ شہید پر یہ تبصرہ کیا گیا کہ انہیں جس علاقہ پر قبضہ کرنے کا کہا گیا تھا وہ اس سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں تھے اور جی ایچ کیو کو چاہئے تھا کہ انہیں اس سے روکتا اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بجائے علاقہ دشمن کے حوالہ کرنے کے دشمن کے علاقہ پر قبضہ کیا تھا۔ اور اسی کوشش میں آپ نے اپنی جان بھی قربان کر دی۔

(Hammodur Rahman commission Report, Published by Vanguard company, P214.215)

اور سویلین شعبہ میں اُس وقت ایک احمدی ایم ایم احمد بطور سیکریٹری خزانہ موجود تھے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ملک ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اُ س وقت پاکستان کی حکومت اور مغربی پاکستان کے سیاستدان عوامی لیگ کے چھ نکات تسلیم کرنے اور انہیں اقتدار حوالے کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس وقت جو مذاکرات ہو رہے تھے اس میں عوامی لیگ کی طرف سے بنگلہ دیش کے پہلے وزیر ِ قانون کمال حسین صاحب بھی شامل تھے ۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ بھٹو صاحب نے اور حکومت نے مالی معاملات میں عوامی لیگ کے بعض مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس سمت میں واحد پیش رفت اُس وقت ہوئی جب ایم ایم احمد ایک دن کے لئے مذاکرات میں شامل ہوئے۔ انہوں نے شروع میں ہی کہا کہ معمولی ردو بدل کے ساتھ مالی معاملات میں عوامی لیگ کے مطالبات تسلیم کئے جا سکتے ہیں۔ اور ہمیں کچھ نکات لکھ کر دیئے اور جن معاملات میں مذاکرات رُکے ہوئے تھے ان میں بھی لچک کا مظاہرہ کیا۔ اور ہم نے ان کے نوٹس کے مطابق تجاویز تیار بھی کر لی تھیں ۔ کہ مذاکرات روک کر فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ۔ اور حقیقت یہ تھی کہ ایم ایم احمد کو اسی دن مذاکرات روک کر مغربی پاکستان واپس بھجوا کر فوجی آپریشن شروع کرا دیا گیا تھا۔ اس طرح مفاہمت کا یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

( Bangladesh Quest for Freedom and Justice, by Kamal Hossain, published by Oxford University Press 2013, p101-102)

بحیثیث قوم ہم پاکستانیوں نے کچھ سنگین غلطیاں کیں جن کا نتیجہ سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں نکلا ۔ ہمیں کبھی یہود اور کبھی کسی اور کو الزام دینے کی بجائے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اور تمام مصنفین اور کالم نگاروں سے عاجزانہ گذارش ہے کہ آپ کی رائے کچھ بھی ہو قوم کے سامنے حقائق رکھیں انہیں ذہنی افیون نہ پیش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).