قیادت کے پیچھے کیا ہے؟


یو ٹرن پر بہت بات ہو چکی اور کیونکہ عمران خان نے اس الزام کو ایک تمغہ بنا کر اسے اپنے گلے میں لٹکا لیا ہے تو اس کا ذکر ہوتا رہیگا۔ ہمارے وزیراعظم کی نظر میں یو ٹرن لینا تو اعلیٰ قیادت کا وصف ہوتا ہے لیکن حضور اعلیٰ قیادت کی پہچان تو دراصل یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہے۔ اپنے وعدے پورے کرے۔ لوگ اس پر اعتماد اور بھروسہ کر سکیں۔ اس میں فیصلہ کرنیکی صلاحیت ہو اور ایسے فیصلے کہ جو صرف چند دنوں میں بدل نہ جائیں۔

ہاں، حالات میں اگر کوئی انقلابی تبدیلی رونما ہو جائے تو لیڈر کے لئے اپنی پالیسی یا راستہ تبدیل کرنیکا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے جو بہت بڑا لیڈر ہوتا ہے وہ تو خود حالات کو بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔ دوسروں کے فیصلے تبدیل کردیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست میں اور خاص طور پر ہماری سیاست میں مصلحت اور موقع پرستی کا بول بالا ہو رہا ہے لیکن عمران خان نے تو کرپشن کے خلاف ایک جہاد کا اعلان کیا تھا اور اقتدار کے حصول کے لئے اپنے عہد یا وعدہ کو توڑنا بھی تو کرپشن کی ایک شکل ہے۔ کئی معنوں میں یہ مالی کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو پائی پائی کا حساب تو رکھتے ہیں لیکن جو بلا جھجک ظلم اور نا انصافی کی حمایت کر بیٹھتے ہیں جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

عمران خان کے بارے میں ان کی مخالف جماعتوں کے رہنما جو کچھ کہتے رہتے ہیں اسی سے قطع نظر ہم یہ تو دیکھ رہے ہیں کہ خود عمران خان کے اور ان کے وزیروں کے بھی کئی بیانات صرف چند دنوں یا ہفتوں میں متروک ہو جاتے ہیں۔ حکومت کے پہلے 100 دنوں کا حساب ابھی تک لیا جا رہا ہے۔ میں یہاں جس نوعیت کی رو گردانی یا وعدہ خلافی کی بات کر رہا ہوں وہ اس یو ٹرن سے مختلف ہے جو بنیادی فیصلوں کا رخ موڑ دے۔ اس سے تو یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت قدم قدم پر رک کر اس تذبذب کا شکار ہے کہ کیا کرے اور کیا کہے۔

اس عمل میں کئی کہی ہوئی باتیں رد ہوتی رہی ہیں۔ کیا کچھ حکومت کے بس میں ہے اور کیا نہیں ہے، سمجھ میں نہیں آ رہا۔ مثال کے طور پر وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی وژن کے چند اینکرز کے ساتھ گفتگو کی اور جسے بعد میں نشر کیا گیا تو نکتہ چینوں کو کافی نیا مواد مل گیا۔ یہ بات عمران خان نے شاید روا روی میں کہہ دی لیکن کہی تو کہ نئے انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے اس بیان نے بھی حیران کیا کہ جب ڈالر اچانک بہت مہنگا ہو گیا تو اس کی خبر انہیں میڈیا سے ملی۔

یہ بات تو ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ فوج، حکومت، سیاسی رہنما اور قومی ادارے اب ایک صفحے پر کھڑے ہیں لیکن اس کی ایک وضاحت عمران خان نے یوں کی کہ فوج تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ ہے۔ اعظم سواتی نے جمعرات کو اپنا استعفیٰ ان کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد میڈیا سے اپنی پہلی گفتگو میں عمران خان نے اعظم سواتی کے عدالتی معاملات سے بے خبری کا اظہار کیا۔ بابر اعوان کی رخصتی اس سے پہلے کی بات ہے۔

یہ پرانے کھلاڑی بھی تو ان کی اس ٹیم میں شامل رہے کہ جو بنیادی طور پر تبدیلی کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ٹیم کی بات ہو تو عمران خان کا ”کپتان“ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ اس ملاقات میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کپتان جب چاہے اپنی اسٹرٹیجی بدل سکتا ہے۔ یعنی یو ٹرن کے سائے میں موقع کی مناسبت سے پالیسی میں تبدیلی جائز ہوتی ہے۔ یہ دلیل اس وقت سامنے آئی جب انہیں یاد دلایا گیا کہ انتخابات سے پہلے انہوں نے جن جماعتوں سے کبھی ہاتھ نہ ملانے کا عہد کیا تھا انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔

اس میڈیا ملاقات سے پیدا ہونیوالے کئی اور سوالات بھی ہیں جن پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آبادی کے خطرناک اضافے پر غور کرنے کے لئے سپوزیم ہوا، اس میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان ساتھ ساتھ تھے اور بڑی سرخیاں آبادی کے بارے میں نہیں بلکہ وزیراعظم کے اس بیان پر بنیں کہ پانامہ فیصلہ دراصل نئے پاکستان کی بنیاد تھا اور یہ کہ چیف جسٹس نے وہ کام کیے جو جمہوری حکومت کے تھے۔ اسی تسلسل میں جمعرات کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جو کچھ کہا اس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

یہ گویا فوج کے مورچے سے دکھائی دینے والے پورے منظر کا ایک ماہرانہ جائزہ تھا کہ جس کو سمیٹنے کی اس وقت کوشش بھی نہیں کروں گا۔ مطلب یہ کہ اس ہفتے اتنے ڈھیر سارے پیغام اور اشارے ہم نے وصول کیے ہیں کہ جن کو جوڑ کر کئی مختلف تصویریں بنائی جا سکتی ہیں اور میں نے وزیر خزانہ اسد عمر کی مشکلات کا تو ذکر ہی نہیں کیا اور نہ ہی اس شعلہ بیانی کا کہ جس کا ٹھیکہ مرکز اور پنجاب کے اطلاعات کے وزیروں کے پاس ہے۔ اس بظاہر غیر ضروری یلغار کا بھی کوئی مقصد ہو گا لیکن میں نے تو اس کالم کو یو ٹرن کی کھونٹی پر لٹکانے کا ارادہ ایک خاص بات کہنے کے لئے کیا تھا۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ لیڈر بار بار اپنے فیصلے بدلنے سے نہیں بلکہ اپنے وعدوں پر قائم رہنے سے پہچانا جاتا ہے۔ اس صلاحیت کا گہرا تعلق معاشرے کی اپنی استقامت اور آسودگی سے ہے۔

میں نے کبھی ”ٹرسٹ“ یعنی اعتبار یا بھروسے کے موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب کا ذکر کیا تھا۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں اور خوشحال ہوتے ہیں جن میں لوگ ایک دوسرے پر اور اپنے اداروں پر پوری طرح اعتبار کر سکتے ہوں۔ بھروسے اور اعتماد کی فضا ہی میں زندگی کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ انسانی رشتوں میں بھی بھروسے اور اعتبار کے ہونے یا نہ ہونے سے سب کچھ بدل سکتا ہے۔ ایک اخباری کالم میں اس خیال کی تشریح بہت مشکل ہے۔

ویسے بھی یہ ذمہ داری معاشرتی علوم کے ماہر ہی نباہ سکتے ہیں۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بھروسے کا سرمایہ بھی بہت کم ہے اور اس کی ایک شکل یہ ہے کہ ہم اپنے رہنماؤں کی باتوں، وعدوں اور فیصلوں پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ہر رہنما یہ حق اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے کہ جب وہ چاہے اپنا راستہ یا اپنا فیصلہ تبدیل کر دے۔ اور افسوس کہ یہ وہ تبدیلی نہیں ہے کہ جس کی آرزو لے کر ہم کئی بار ایک نئے سفر پر چلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، کیونکہ ہم کرکٹ کے استعاروں میں بات کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اس لیے اس سفر کا حال بھی ٹھیک سے بیان نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہے کہ عمران خان کا ”گیم پلان“ کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے تو انہیں کرتار پور راہداری کی پچ پر گگلی کرتے دیکھا تھا لیکن یہ کہہ کر وہ خود کیچ آؤٹ ہو گئے کیونکہ ان کے اس بیان کو بھی واپس لے لیا گیا۔ البتہ وہ کھیل جاری ہے جس میں عمران خان ”کپتان“ ہیں اور امپائر بھی شاید ان کی ٹیم میں شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).