عورتیں گلابی ٹیکس کیوں دیں؟


\"mahnaz2\"آپ پوچھیں گے کہ یہ گلابی ٹیکس کیا ہے؟گلابی ٹیکس وہ ہے جو کسی بھی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔اگر آپ 14۔2013ء کا بجٹ دیکھیں تو جن اشیائے صرف پر ٹیکس لگا تھا، ان میں سینیٹری ٹاولز اور پیڈز بھی شامل تھے۔ اسی طرح 2015ء کے اواخر میں جو منی بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیش کیا گیا، اس میں بھی سینیٹری پیڈز اور ٹاولز پر پانچ فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اب سینیٹری پیڈز ایسی چیز ہیں جو ہر ماہ خواتین کو خریدنے ہی پڑتے ہیں۔ ان کا شمار اشیائے تعیش میں نہیں بلکہ خواتین کے لئے انتہائی ضروری اشیا میں ہوتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کی چالیس ریاستیں بھی اسے کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی طرح ضروری چیز نہیں سمجھتی ہیں۔ فرانس میں تو خواتین کے احتجاج کے بعد حفظان صحت کی نسائی اشیا پر ٹیکس کم کر دیا گیا ہے۔ کیلی فورنیا ریاست کی اسمبلی کی رکن کرسٹینا گارسیا کے بقول ”ہم پرعورت ہونے کی وجہ سے ٹیکس لگایا جا رہا ہے“۔ امریکا کی کئی ریاستوں میں عورتوں نے اس حوالے سے محصولات اور مالیات کے محکمے پر مقدمے دائر کر دئیے ہیں۔ وہ سینیٹری پیڈز پر ٹیکس کو عورت کے خلاف امتیازی رویہ قرار دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں حفظان صحت کے اصولوں کی پروا نہیں کی جاتی اور ماہواری کے معاملے میں ویسے بھی رازداری برتی جاتی ہے۔ مہنگائی کے باعث ہو سکتا ہے کچھ خواتین پورا دن ایک ہی پیڈ پر اکتفا کریں۔ گاﺅں اور قصبوں کی خواتین ویسے بھی پیڈز کی بجائے کپڑا استعمال کرتی ہیں جسے دھونے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ طریقہ حفظان صحت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ یونیسیف کے تخمینے کے مطابق دس فی صد افریقی لڑکیاں ماہواری کے ایام میں اسکول سے غیر حاضر رہتی ہیں۔

علاوہ ازیں اگر ایک جیسی پروڈکٹس کے لئے مرد کے مقابلے میں عورت کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے بھی گلابی ٹیکس کہا جاتا ہے۔ ریزر اور شیمپو جیسی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ اس میں ڈرائی کلیننگ اور ہئیر کٹ جیسے بڑے اخراجات بھی شامل ہیں۔ ایک جیسے کام کے لئے عورت کو مرد کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے لیکن قیمت وہ مرد کے مقابلے میں زیادہ ادا کرتی ہے۔ یعنی اب مارکیٹ صرف اجرتوں میں فرق کے ذریعے عورتوں کے خلاف امتیاز نہیں برتتی بلکہ گلابی ٹیکس کے ذریعے بھی عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس امتیازی سلوک کو سمجھنے کے لئے ہمیں اجرتوں میں فرق کے علاوہ تعلیم، تجربے اور کچھ خاص کاموں کے لئے ترجیح کو بھی دیکھنا ہو گا۔ جسمانی طور پر مختلف لیکن یکساں تعلیمی اور اقتصادی قابلیت رکھنے والے مرد اور عورت اگر ایک جیسا کام کرتے ہیں تو اجرتوں میں فرق کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ ایک تو اجرتیں برابر نہیں اور پھر عورتیں قیمتیں بھی زیادہ ادا کریں تو یہ تو سراسر ناانصافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments