جاجا ڈاکٹرائن


جاجا ڈاکرائن کے بانی جناب جاجا صاحب کا فون آیا۔ فون کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں جاجا صاحب کے بارے میں بتا دوں میری ان سے پہلی ملاقات سڑک پر ہوئی، میں اپنے برادر نسبتی عارف کو اس کے گھر چھوڑنے پہنچا تو ان کی بلڈنگ کے نیچے سڑک پر میرا دوسرا بردار نسبتی بابر کسی موٹر سائیکل سوار کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا جیسے ہی ہم گاڑی سے اتر کر اوپر جانے لگے بابر نے عارف کو آواز دے کر کہا ”عارف، جناب جاجا صاحب“۔

عارف نے اس سے حال احوال لیا۔ اور پوچھا کہ کب فیصل آباد سے کراچی آئے ہو؟ اور آج کل کیا کر رہے ہو؟ جاجا صاحب کی بجائے بابر نے اپنے بھائی کو بتایا کہ یہ تو بڑے عرصے سے ادھر ہی ہیں۔ کیا کر رہے ہو؟ اس کا جواب جاجا صاحب نے خود دیا۔
”پہلے تو وہی فیصل آباد والا کا م کرتا رہا۔ پھر ایک دو دفعہ پکڑا گیا۔

اب دنیا دکھاوے کے لئے چھوٹی موٹی ملازمت کر رہا ہوں باقی اپنا کام اب صرف جعلی سرٹیفکیٹ ڈگریوں، ڈومی سائل تک محدود کر دیا ہے، اوریہ کام بھی میں صرف شرفا اور اچھے اداروں کے لئے کرتا ہوں۔ پھر اس کھلے ہڈ پیروں والے کھلے ڈھلے آدمی نے قہقہ لگا یا اور کہا۔ ”شرفا اور اچھے اداروں کے لئے کام کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ شریف آدمی اور اچھے ادارے اپنی عزت سے ڈرتے ہیں اور بلیک میل ہوتے ہیں۔

(سانوں لتھی چڑی دی کوئی نئی)
(ہمیں عزت بے عزتی کی کوئی پروا نہیں )
لہذا پکڑے جانے کے چانس نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ اس کے بعد موٹر سائیکل اسٹارٹ کی، یہ جا اور وہ جا۔

آخری فقرے کو ہم تینوں نے خوب انجوائے کیا اوربابر نے جاجا صاحب کے بارے میں بتایا کہ اگر وہ کہیں سرے راہ مل جائیں تو دور ہی رہتا ہوں کیونکہ یہ فیصل آباد میں جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے میں لوگوں کی مدد کرتے تھے اور یہاں بھی آپ نے سن لیا ان کے کام کے بارے میں جاجا صاحب چلے گئے اور میں ان کے اس ڈاکٹرائن ”سانوں لتھی چڑی دی کوئی نئی“ کے بارے میں جتنا سوچا اس کے قابل عمل اور کامیابی کی کنجی کا قائل ہوتا گیا۔

اور اسے۔ لچا سب تو اُوچا۔ اور بلوچ کہاوت۔ میں بے شرم ہوں میں ترقی کروں گا۔ اور۔ چور اچکا چوہدری تے غنڈی رن پردان۔ اور پشتو محاورے۔ تیرا مال میرا۔ اور میرا مال ہی ہی ہی۔ اور اس طرح کے پوری دنیا کہ ادب میں دستیاب لاکھوں محاوروں کا نچوڑ لگا اور اپنے وطن میں اس ڈاکٹرائن کے ثمرات ہر طرف پھیلے ہوئے نظر آئے۔

یہ تھا جناب جاجا صاحب کا مختصر تعارف جناب جاجا صاحب تو اس ڈاکٹرائن کے مجھے مقامی بلکہ چھوٹے سے علاقائی بانی لگے یا یہ فلسفہ ان کے ذریعے بالکل جامع اور مختصر تعریف کی شکل میں مجھ تک پہنچا، جب کہ یہ ایک قدیم فلسفہ حیات ہے۔ اس کے پیروکاروں کی کامیابیوں اور دنیا کے ان پر اثرات پر اب تک ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی اور لکھی جاتی رہیں گی۔

دنیا بھر میں جہاں محنت، صبر، لگن اور جدو جہد سے کامیابیاں سمیٹیی جاتی ہیں ہیں وہیں جاجا ڈاکٹرائن کے پیروکار بھی انسانی تاریخ میں بڑے کامیاب رہے۔ تیسری دنیا کے مقدر میں تو اکثر اس ڈاکٹرائن کے پیروکار حکمران ہوتے ہیں اور جب حکمران ایسے نصیب ہوتے ہیں تو ان کی چھتر چھایا میں بدمعاشیہ اشرفیہ بن جاتی ہے، لیکن آج کل تو امریکی صدر بھی اسی فرقے کے پیروکاروں میں سے ہیں کیوں کہ ان کے بارے میں جو انکشاف ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ اسی ڈاکٹرائن جسے میں نے جاجا ڈاکٹرائن کا نام دے رکھا ہے کے سچے پیروکاروں میں سے ایک ہیں۔

جناب جاجا اکثر اوقات مجھے اپنی عقل دانش سے مزین گفتگو سے نوازتے ہیں اور اپنے فلسفہ حیات کے بارے میں بتاتے اور اپنے اس فلسفے کے پھلنے پھولنے کا بھی بتاتے ہیں۔

جس دن حکومت پاکستان نے علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ میں سیفر تعینات کیا اس دن صبح سویرے ہی ان کا فون آیا، سلام دعا کے فوراً بعد بولے یار یہ مقابلے کا امتحان ہر سال ہوتا ہے؟
میں نے کہا ہاں، پھر بولے ہزاروں ذہین پڑھے لکھے محنتی نوجوانوں میں سے چند سو پاس ہوتے ہیں؟
میں کہا جی ایسا ہی ہے۔
پھر بولے ان میں سے چند بہترین فارن سروس کے منتخب کیے جاتے ہیں؟ میں نے ہنکورا بھرا ”ہاں“۔

پھر جاجا صاحب بولے انہیں پہلے سول سروس اکیڈمی اور پھر فارن سروس اکیڈمی میں بہترین اساتذہ تربیت دیتے ہیں پھر یہ دنیا بھر میں تعینات ہوتے ہیں اور اکثر دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھی تربیت حاصل کرتے ہیں پھر دو تین دھائیوں بعد مسلسل تربیت تجربات کے عمل سے گزرنے کے بعد اس بات کے خواب دیکھتے ہیں کے اب ہمیں کہیں سفیر تعنیات کیا جائے گا؟

میں کہا جی ایسا ہی ہے۔ اور جنہوں نے سارے کریئر میں بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی ہے انہیں امید ہوتی ہے ہمیں کسی بڑے ملک میں اپنے ملک کی نمائندگی کا موقع ملے گا؟
میں نے کہاں جی ایسا ہی ہے لیکن یہ صبحِ ہی صبحِ یہ سب مجھے بتانے کی کیوں ضرورت پڑ گئی آپ کو؟
وہ بولے اچھا ایک آخری سوال بتاؤ جمہوریت کا مطلب نا انصافی ہوتا ہے؟ یا ایسا نظام ہوتا ہے جو ایک شخص کو من مانی کرنے کا اختیار دیتا ہے؟ میں نے کہاں قطعی نہیں۔

جاجا صاحب غصے سے بولے یہ جو تمھارے وزیراعظم نے اسٹاک میں مندی تیزی کرنے والے کے بیٹے کو سفیر لگایا ہے جس نے ملین ڈالرز کے سوال کا کسی بڑے کو ہاں میں جواب دیا ہے بلکہ یہ جواب بھی ابا حضور نے ہی دیا ہو گا یہ کیا ہے نا انصافی نہیں ان کے ساتھ جو دہائیوں ملک کی خدمت کرتے ہیں اور پھر کبھی کوئی لیٹریل انٹری والے غلام (جنہیں سول سروس والے غصے میں لیٹرین انٹری بھی کہتے ہیں ) کبھی صحافی واجد شمس الحسن کبھی قاسمی، ملحیہ لودھی، حقانی اور کبھی کوئی جرنیلوں کا ہم نوالہ و پیالہ اور اسی طرح کے دیگر کہاں سے آجاتے ہیں۔

اگر وہ کیریئر افسر اس قابل نہیں ہوتے تو اس نظام کو لپیٹ دو اس پر کیوں خرچہ کرتے ہو اور اگر یہ اتنے ہی جینیس ہوتے ہیں تو پھر ایسے ساروں کو کابینہ میں کیوں نہیں لے لیتے اور اگر ریاست ایسے ہی چلانی ہے تو پھر صدارتی، بلکہ صدارتی بھی نہیں وہ تو جوبداہ ہوتا ہے، اپنے الیکٹورل کالج کو کوئی شہنشاہی نظام کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے جب صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو۔

اور ہاں آخر میں یہ میرے ڈاکٹرائن کو بدنام مت کیا کرو کہ صرف مجھے اور میرے فلسفے کے پیروکاروں کو ہی لتھی چڑھی دی کوئی نئی بلکہ یہ سمجھ لو ہماری ساری اشرافیہ جن پر اس ریاست کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری ہے کو بھی لتھی چڑھی دی کوئی نہیں اور ادارے اور پاکستانی کریئر ڈپلومیٹ خاموش رہتے ہیں۔

جمہوریت کے نام پر اتنی بڑی نا انصافی پر میں نے شرمندگی سے کہاں جب ادارے بلیک میلنگ کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں جن کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے وہ روٹی ٹکر کے چکر میں خاموش رہتے ہیں ورنہ جس کا براہ راست حق مارا جاتا ہے وہ استعفی دینے کی روایت ڈالیں تو دنیا کو پتہ چلے جمہوری چھری کہاں چلی ہے لہذا جب سب خاموش ہیں تو اپنے آپ کو شریف ثابت کرنے کے لیے میں بھی خاموش ہوں اور ہاں صبح صبح مجھے تنگ مت کیا کرو میں معافی چاہتا ہوں۔

جو کبھی طنزیہ تمھارے ڈاکٹرائن پر بات کرتا ہوں دل کے اندر ایک حسرت دبائے بیٹھا ہوں کہ کاش میرے پاس بھی اتنی ہمت اور جرات ہو کہ میں سرعام تمھارا پیروکار بن جاؤں!

اعظم معراج رئیل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ ہیں اس موضوع پر دو اور پاکستانی مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر اجتماعی شناخت کو اجاگر کرنے کے لئے آٹھ کتابیں تصنیف کرچکے ہیں، جن میں ”سبز و سفید ہلالی پرچم کے محافظ“ اور ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ نمایاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).