وزیر اعظم دیر نہ ہو جائے


سرکار کو بدلے ہوئے 100 دن سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے تبدیلی کا نعرہ تنقید اور تشہیر کی زد میں ہے۔ کمال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی بھی خواہش ہے کہ کپتان عمران خان کی سرکار چلتی رہے۔ کپتان عمران خان ایک سادہ منش انسان ہے۔ اس کی زندگی بھی عجیب ہے۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا اور اکلوتا بھائی ہے۔ اس کو تنہائی پسند ہے۔ وہ جب بھی تنہا ہوتا ہے وہ جیتنے کے لئے منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ وہ کھلاڑی اور اب ایک سیاست دان بھی ہے۔

اس کی سیاست بھی عجیب ہے۔ وہ سیاسی لوگوں کی طرح وعدہ نہیں کرتا ہے اور سادگی سے اپنی رائے دے دیتا ہے۔ اس کی باتوں میں خلوص اور یقین ضرور ہوتا ہے مگر برا ہو ان سیاست دانوں کا جن کی نیت میں اکثر فتور ہی رہتا ہے۔ سیاست کی دنیا میں یہ سب کچھ ضروری ہوتا ہے۔ اس وقت جو زبان قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بولی جا رہی ہے وہ نئی تو نہیں۔ ہمارے سماج میں اکثر صاحب اقتدار اورصاحب ایمان لوگ گھروں میں ایسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے اخبار، ٹی وی چینل اور اسمارٹ میڈیا پر اس زبان کا بہت چرچا ہے۔ اس زبان میں جھوٹے الزامات، غیبت اور وہم کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ تم کچھ نہیں کرسکتے اس کے بعد تالیاں اور شاعری۔ واہ واہ یہ ہے ہماری جمہوریت جو قابل اعتبار بھی نہیں۔

ایک دنیا، دوست، دشمن، اپنے، پرائے غرض کے سب کے سب پاکستان کو اپنی اپنی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔ صرف ہمسائے ایسے ہیں جو پاکستان کو ختم کرنے اور ساتھ رکھنے پر آس اور امید رکھتے ہیں۔ بھارت کی جمہوریت پرست سرکار کو پاکستان کا وجود کھٹکتا ہے۔ بھارت کے پردھان منتری مودی جو 2019 ء کے انتخابی معرکہ کی تیاری میں مشغول ہیں۔ وہ پاکستان دشمنی کو ہوا دے کر اور ہندو مت کی تشہیر کرکے مذہبی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں۔

ان کا انتخابی ایجنڈا بابری مسجد کی جگہ پر ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر ہے۔ ان کا خواب بھارت کے انتہا پسند جنونی برہمن ضرور پورا کر سکتے ہیں مگر بھارت کی دوسری بڑی اقلیت نے ان کے خواب کو مشکوک کر دیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سرکار بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کے لئے مسلسل کوشش کر رہی ہے اور بھارت کی سرحدوں پر جنگی تیاری کو بھی نظرانداز کرتی رہی ہے۔ چند دن پہلے عمران خان وزیراعظم پاکستان نے اپنے دوستوں اور حلیف ملکوں سے مشاورت کرکے سکھوں کے گرو بابا گرونانک کے حوالہ سے راست قدم اٹھایا ہے اور سکھ دھرم کی اہم روحانی درگاہ کو بھارت اور دنیا بھر کے سکھوں کے لئے کھول دیا ہے۔

ایک طرف بھارت اور دوسری طرف پاکستان کے اندر کچھ حلقے اس تعمیری کوشش کو ناپسند کر رہے ہیں۔ ہمارے سابقہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور سابق رکن اسمبلی مولانا فضل الرحمٰن جن کی جماعت اس دفعہ عملی سیاست سے بے دخل ہے وہ طالبان کے کندھے استعمال کررہے ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو پاک بھارت تعلقات کو اگلے سال 2019 ء کے انتخابات کے لئے نشانہ بنا رہے ہیں۔ مودی کی حکمران جماعت داخلی مشکلات کا شکار ہے اور لگتا یوں ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی 2019 ء کا انتخابی معرکہ ہار جائیں گے۔

اس وقت وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے پاس ایک نئے پاکستان کی تعبیر ضرور ہے مگر پاکستان کے سیاسی حلقے ان کی ترجیحات کو پسند نہیں کرتے۔ پھر عمران کی کابینہ اور مشاورتی ٹیم بھی پہلے 100 دن میں کوئی خاص کردار نمایاں نہیں کرسکی ہے۔ عمران خان کے پاس مزید کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے مگر جیتنے اور پاکستان کو بدلنے کے لئے وقت لگتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈالر کی قیمت نے پاکستان کی معیشت کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی میں مداخلت نہیں کرسکتے مگر وزیر خزانہ اسد عمر اس معاملہ پر خاموش ہیں، وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پر بھی بات نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اتنا بھی خودمختار نہیں کہ ڈالر کی قیمت پر سرکار کو نظرانداز کرے۔ کچھ حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ڈالر کی قیمت کا فارمولہ ماننے کے لئے ایسا کرنا پڑا۔ اسٹیٹ بینک اس معاملہ پر مکمل خاموش ہے یہ صورتحال عمران خان کے اقتدار کے لئے سبکی کا باعث بن رہی ہے پھر حزب مخالف کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ عمران خان کی سرکار مشکل وقت کا سامنا خود ہی کرے۔

حزب مخالف کے لوگ جن میں شہباز شریف اور زرداری نمایاں ہیں ان کا بھی آپس میں تال میل نہیں ہے صرف پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کے لئے سرگرم عمل نظر آتے ہیں مگر اب ان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح تمام قاعدے قانون نظرانداز کیے ہیں اور ان پر نیب کا نزلہ گرنے والا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ حزب اختلاف کے اکثر لوگ اگلے انتخابات سے پہلے پہلے نا اہل ہو جائیں گے۔

ملک کی اعلیٰ عدلیہ غیر یقینی صورتحال میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ عوام کو آسانی میسر ہو اور قانون کا مکمل احترام ہی نہیں اس پر عملدرآمد بھی ہو۔ صحت اور تعلیم کے حوالہ سے کئی اچھے فیصلے عمران کی سرکار کو آسانی فراہم کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ قبل از وقت انتخابات کا نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف اس وقت قانون سازی کے معاملہ پر مشکلات کا شکار ہے پھر اس کے اپنے لوگ بھی نیب کی زد میں آ رہے ہیں اور کافی لوگ نا اہل ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں قبل از وقت انتخابات سے سیاسی راستہ نکالا جا سکتا ہے پھر کچھ لوگ صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں مگر وہ آواز واضح نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ کے لئے نظام اور سرکار کے لئے اہم فیصلے ملک کی اعلیٰ عدالت ہی کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).