”دانائی کی تلاش میں“ پر ایک غیر دانا تبصرہ



دانائی کیا ہے؟ مفکّر کسے کہتے ہیں؟ دانشور کی کیا خصو صیات ہونی چاہئیں اور کوئی دانشور کیسے بن سکتا ہے؟ کیا کچھ لوگ پیدائشی دانشور ہوتے ہیں؟ اگر چہ یہ بہت سادہ سوالات ہیں لیکن ان کے جوابات اتنے ہی کٹھن اور پیچیدہ ہونگے۔ اور شاید مختلف لوگوں کے یہ جوابات بھی ایک دوسرے کے لیے ناتسلی بخش اور بہت مختلف ہوں۔

خالد سہیل کی کتاب ” دانائی کی تلاش میں” نے براہِ راست ان سوالوں کے جوابات نہیں دئے لیکن کتاب پڑھنے کے بعد قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے جوابات کافی حد تک مل گئے ہیں۔ اور اپنی فکری پیاس بجھانے کے لئے اس کو علم کے گہرے پانیؤں میں غوطے لگانے کی ضرورت ہے۔

“دانائی کی تلاش میں” میں پانچ سو قبل ِ مسیح سے لے کر 2018 سنہ تک کی وسیع مدّت میں چالیس مشہور و معروف مفکّروں کی مختصر سوانح حیات ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ یہ کتاب مفکّرین اور دانشوروں کے بارے میں اپنی نوعیت کی اردو زبان میں انتھلوجی ہے۔ اس کتاب میں خالد سہیل نے کئی سمندروں کو ایک کوزہ میں بند کردیا ہے ۔ ان میں سے ہر مفکّر پر دنیا کی بے شمار زبانوں میں ان گنت کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن اتنے مشہور مفکّروں کو ایک ہی کتاب میں سما دینا غالباً اردو زبان کی اوّلین کوشش ہے۔ میرے خیال میں ایک عام آدمی کے لئے اس چھوٹی سی تقریباً سو صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھ کر ان مفکّرین کی مختصر سوانحِ حیات کے ساتھ ان کی فکری کام کےبارے میں ایک نشاندہی ہو جاتی ہے ۔ پھر اس ابتدائی معلومات کے ذریعےسے قاری جن اصحابِ فکرسے متاثر ہو اُن کے بارے میں مزید علم دوسرے ذرائع ابلاغ سے پورا کر سکتا ہے۔ یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ یہ کتاب مفکّروں کے بارے میں جاننے کے لئے پہلا مثبت قدم ہے ۔

ہر مفکّر دانشور نہیں ہوتا۔ دانشور انسانی فکر کی حدود میں توسیع کرتے ہیں اور انسانی شعور اور ارتقاء کے سفر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن دنیا میں بہت سے مفکرین ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے دانائی کی تلاش میں انسانی فکر کی حدود کو تنگ کرنا چاہا اور انسان اور معاشرے کو زوال کی طرف یا جنگ و جدل کی طرف دھکیل دیا۔ میرے نزدیک انسانی فکر بغیر شعور کے ایک خطرناک عمل ہے۔

درجِ ذیل ان مفکرین کی فہرست ہے جن کی سوانح عمریاں اس کتاب کی زینت بنی ہیں ۔
کنفیوشس (سیاست، فلسفہ، اخلاقیات)، لاؤزو (فلسفہ ، اخلاقیات)، بدھا (فلسفہ ، رھبانیت)، مھاویرا (فلسفہ ، رھبانیت)، زرتشت (مذہب، اخلاقیات)، سقراط (فلسفہ، منطق، سیاست)، افلاطون (فلسفہ، سیاست)، ارسطو (فلسفہ، سیاست، سماجیات)، بقراط (طب)، جالینوس (طب )، الکندی (فلسفہ، طب)، الفرابی (فلسفہ، طب، موسیقی)، الرازی (طب، کیمیا، فلسفہ)، بوعلی سینا (طب، فلسفہ)، الغزالی (مذہب، فلسفہ، قانون)، ابن رشد (فلسفہ، طب، مذہب، طبیعات)، ابن تيميہ (مذہب)، ابن خلدون ( تاریخ، سماجیات، فلسفہ)، رینی ڈیکارٹ ( فلسفہ، ریاضی)، ڈیوڈ ہیوم (فلسفہ، تاریخ، معاشیات)، جون روسو (موسیقی، سماجیات، سیاست)، ایڈم سمتھ (معاشیات، فلسفہ)، ایملی ڈرکھائم (سماجیات، نفسیات، معاشیات)، میکس ویبر (معاشیات، سماجیات)، جارج ہیگل ( فلسفہ، سیاست، مذہب)، کارل مارکس (فلسفہ، معاشیات، سماجیات)، اونٹونیوگرامچی ( فلسفہ، معاشیات)، لوئی التھوزر (فلسفہ، معاشیات)، فریڈرک نیٹشے (فلسفہ، معاشیات)، چارلس ڈارون ( فلسفہ، سائنس)، سٹیفن ہاکنگ ( فلسفہ، سائنس)، سگمنڈ فرائڈ (طب، نفسیات)، کارل ینگ (نفسیات)، ژاں پال سارتر ( فلسفہ، نفسیات)، ایرک فرام (نفسیات، سماجیات، سیاست)، کوفی عنان (سیاست)، محمد یونس (معاشیات)، مارٹر لوتھر کنگ جونیئر ( سیاست، سماجیات)، نیلسن منڈیلا (سیاست، سماجیات)۔

یہ تمام مفکّرین کسی نہ کسی لحاظ سے فلسفی تھے۔ ان میں سے کچھ تو عظیم فلسفہ دان تھے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ ان میں کئی فلسفی جیّد طبیب بھی تھے۔ یہ مفکّر غیر روایتی لوگ تھے اس لئے ان کو معاشرے نے قبول نہیں کیا۔ مصنف نے صفحہ 105 پر تحریر کیا ہے
“جب ہم دانشور وں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ ان فلسفیوں اور سائنسدانوں نے اپنی سوچ ، اپنی فکر اور اپنے آدرش کے لئے کتنی قربانیاں دیں۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا گیا، بعض کو سولی پر چڑھا دیا گیا، بعض کو ملک بدر کر دیا، بعض کی کتابوں پر حکومتی اور مذہبی اداروں نے پابندیاں لگا دیں اور بعض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔”
اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ مفکّرین جب ذہنی توازن کھو بیٹھنے کے بعد صحت یاب ہوئے تو ان کی فکر میں نمایاں تبدیلی آگئی۔ مثلاً الغزالی نفسیاتی بحران سے پہلے سائنس اور فلسفے کی تدریس کرتے تھے مگر صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو سائنس اور فلسفہ ترک کر کے تصوّف اختیار کرنے کے لئے کہا۔ جارج ہیگل کو نفسیاتی بحران کے درمیان کچھ روحانی تجربات ہوئے۔ صحت مند ہونے کے بعد وہ ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالنا چاہتے تھے۔

خالد سہیل کی اس کتاب میں “مسلمانوں کا سنہرا دور اور اس کے بعد۔۔۔۔” ایک دلچسپ باب ہے کیونکہ اس میں اس سنہری دور کے زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ کتاب کے آخری حصے کے باب “مذہبی سچ، روحانی سچ اور سائنسی سچ ” میں سچ کو تلاش کرنے والوں کےتین مختلف طریقوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس سے اگلے باب ” مفکّر اور انسانی شعور کا ارتقا” میں مفکّروں کی خدمات اور قربانیوں کو سراہا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں SUGGESTED READINGS 2017 میں اسّی کتابوں اور مقالوں کی فہرست ہے تا کہ وہ قاری جس کی علمی پیاس کو اس کتاب نے بڑھا دیا ہے وہ دانائی کی جستجو میں اگلی سیڑھی پر قدم رکھ کر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ بات قابل نوٹ ہے کہ اس فہرست میں کئی وہ مفکّرین بھی شامل ہیں جو اس کتاب کا حصّہ نہ بن سکے مثلاً چند نام جن کے بارے میں پہلے سے جانتا ہوں: حافظ، خلیل جبران، والٹ وٹمین، شیخ سعدی، محمد اقبال۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3