انتہا پسندی، رد عمل کی نفسیات اور ذہنی پیچیدگیاں (12)


\"akhtar-ali-syed\"استعمار اور محکوموں کے درمیان استوار ہونے والے مریضانہ اور پیچیدہ تعلق کو سمجھنے کے لئے ھم نے ڈاکٹر اختر احسن کے جس نظریاتی فریم ورک کا سہارا لیا تھا اس کے دو اسلوب Mechanisms بیان ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے کا تیسرا اسلوب یا میکانیت Reaction یا رد عمل ہے۔

استعمار کے مسلط کردہ نظام میں موجود استحصال اور استبداد سے کون انکار کر سکتا ہے۔ محکوموں کی جان، مال، عزت، اور صلاحیتوں کی بے توقیری استعماری نظام اور حکمت عملی کا لازمی حصہ رہی ہے۔ استعمار کے اس سلوک کی مثالیں اور مظاھر بیان کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ یہ ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ ہے۔ اسے دہرانا تحصیل حاصل ہوگا اور وہ ہمارے اس تجزیے کا موضوع بھی نہیں ہے۔ ہمارے تجزیے کا موضوع وہ رد عمل ہے جو محکومیں میں استعماری نظام اور سلوک کے جواب میں پیدا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اختر احسن کا بیان کردہ تیسرا اسلوب ردعمل (Reaction) محکومین کے اختیار کردہ پیچیدہ رد اعمال کی ایک فہرست کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ رد اعمال بظاھر مختلف نظر آتے ہیں۔ محکومین کے مختلف گروہ مختلف اوقات میں انہیں اختیار کرتے ہیں۔ تاہم دو باتیں مستقل ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ ہمیشہ استعمار کے خلاف ہوتا ہے اور دوسرے یہ محکوم کی عملی ضرورت کی بجاے اس کے غصے، خوف اور ضد کی نشاندہی کرتا ہے۔ مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ اس گفتگو میں مثالوں کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ استعمار کی حاکمیت اور استبداد کے جواب میں تمام محکوم ہتھیار بکف کھڑے نہیں ہو جاتے۔ کچھ پر تشدد راستے اختیار کرتے ہیں۔ کچھ سہم جاتے ہیں۔ کچھ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ محکومین کا ہر گروہ اپنا ایک خاص نظریاتی پس منظر رکھتا ہے۔ استعمار کے خلاف کونسا گروہ کیا رد عمل اختیار کرے گا اس کا فیصلہ وہ نظریاتی پس منظر اور اس گروہ کی موجودہ حیثیت مل کر کرتے ہیں۔

\"PIctureھم نے حالیہ زمانوں میں دیکھا کہ حکومت اور اقتدار کو اپنے نظریے کی کامیابی کے لئے لازمی سمجھنے والوں نے متشدد راستے اختیار کیے اس لئے کہ اقتدار کے حصول کے یہ آزمودہ طریقے ہیں۔ انہوں نے جیش بنائے، لشکر ترتیب دیے۔ ملک میں اپنے نظام کو قائم کرنے کے لئے اپنے سیاسی، نظریاتی اور مذھبی مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹایا۔ اس حکمت عملی کے صحیح ہونے پر دلائل دیے۔ قبولیت عامہ نہ ملنے عوام کو جاہل، غیر صالح اور مویشی تک کہا اور جمہوریت کے دشمن ہو گئے .

صوفیانہ مسلک کے حاملین نے اللہ سے لو لگانے پر زور دیا۔ مزاروں اور خانقاہوں پر اجتماعات میں شرکا کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ کار سیاست میں پیش گویوں کا چرچا ہوا۔ پاکستان کی فائل کے ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ کو منتقلی کی خبریں سنائی گئیں۔

ہر دو گروہوں نے اپنے نظریاتی پس منظر میں شدت کی آخری حدوں کو چھوا۔ چونکہ یہ وابستگی حقیقی ہونے کی بجائے ایک رد عمل کا حصہ تھی اس لئے یہ گروہ بالا التزام دو مسائل کے شکار ہوے۔ ایک ہر گروہ بے تحاشا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ ہر گروہ میں مسلسل نئے اور چھوٹے گروہوں کی تشکیل ہماری عام معلومات کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں نے ان گروہوں کے نام اور دیگر تفصیلات سے کئی سال پہلے آگاہ کر دیا تھا مگر ایک سیاسی رہنما کو یہ بات آرمی چیف نے ایک ملاقات میں گوش گزار کی۔ اور دوسرے ہر گروہ کے سر کردہ افراد مالی، قانونی، اور اخلاقی بد عنوانیوں کے مرتکب پائے گئے۔ کراچی میں صوفیا کے مسلک کا پرچارک گروہ اور اس کی سرگرمیاں، جہاد کے لئے حاصل کی جانے والی رقوم اور ان کا استعمال میری بات کی دلیل ہیں۔ صوفیا کے مسلک کی تبلیغ کرنے والا گروہ جس طرح پر تشدد کارروائیوں میں شامل اور شریک ہوا وہ مسلک صوفیا سے اس گروہ کی سطحی وابستگی کا ثبوت ہے۔ گروہ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جب پر تشدد کارروایوں کی ضرورت پڑی انہوں نے انہیں بلا جھجک انجام دیا۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا کہ اس رد عمل کا دائرۂ بہت وسیع ہوتا ہے۔ یہ رد عمل استعمار کے نظریات کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ اس کی حکمت عملی کے خلاف بھی ہوتا ہے اس کی تہذیب و ثقافت کے خلاف بھی ہوتا ہے اور اس کے تمدن اور رہن سہن کے خلاف بھی۔ اور تو اور بعض صورتوں میں اس علم کے خلاف بھی جس کا منبع خود محکومین کے علاوہ کوئی اور ہو۔ استعمار سے کسی بھی قسم کی مشابہت بھی یہ خاص رد عمل پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ یہ مشابہت لباس میں ہو سکتی ہے، زبان کی بھی اور نظریات کی بھی.

\"lal-masjid-terrorists\"ڈاکٹر اختر احسن نے بچے اور والدین کے تعلق میں بچے کے Reaction کے ایک اور پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ذرا اس پہلو کو بھی استعمار اور محکوم کے باہمی تعلق کے حوالے سے دیکھئے۔ والدین جس بات پر بچے کو تنقید یا سزا کا نشانہ بناتے بچہ اپنے Reaction  میں انہی مستحق سزا اور قابل تنقید اعمال کو دوہراتا ہے۔ گو وہ اس طرح مزید تنقید اور سزا کا نشانہ بنتا ہے مگر یہ Reaction  اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ صرف والدین تک محدود نہیں رہتا۔ ذرا اس پرتضاد حکمت عملی پر غور کیجئے۔۔۔ تنقید اور سزا سے بچتے ہوے وہ کام کئے جائیں جن سے تنقید اور سزا میں اضافے کے امکانات بڑھ جائیں۔ اس خود کش رد عمل کے مظاہرے آپ کے سامنے بکھرے پڑے ہیں.

کیا گیارہ ستمبر کے حملہ آوروں اور منصوبہ سازوں کو معلوم تھا کہ ان کی کارروائی کا نتیجہ مسلم ممالک کے لئے کیا نکلے گا؟

کیا طالبان کو علم تھا کہ گیارہ ستمبر کے بعد ان کے فیصلوں کا افغانستان پر کیا اثر ہو گا؟

کیا نسلی تعصب کے شکار سات جولائی کے حملہ آور جانتے تھے کہ برطانیہ میں بسنے والے دیگر مسلمانوں پر ان کے حملوں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

کیا فلسطینی قیادت اسرائیل اور امریکہ سے رقومات کی وصولی کے وقت یہ سوچ سکی کہ ان کا یہ کام فلسطینیوں کے لئے تنقید اور سزا کے کون سے نئے دروازے کھول دے گی؟

\"daesh\"کیا ٹی وی پر بیٹھ کر یا اخبارات کے کالمز میں غلط اعداد و شمار کے ذریعے اپنی بات بیان کرنے والے، جلوسوں میں نعرے لگانے والے، استعمار کے خلاف جلوسوں میں اپنے ہے ملک کی املاک نذر آتش کرنے والے، ڈروں حملوں کا اپنے ہی وطن کے معصوم شہریوں سے بدلہ لینے والے، ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ اپنی باتوں اور کاموں سے استعمار کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔ استعمار نے محکومین کی توہین، ان پر تنقید اور اپنے جارحانہ اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لئے ممختلف لیبل تیار کیے ہوے ہوتے ہیں۔ تنگ نظر، متشدد، شدت پسند، کرپٹ، کم علم، ھٹ دھرم، تہذیب و ترقی سے بے بہرہ اور جمہوریت دشمن ان میں سے چند ایک ہیں. (تفصیل کے لئے ایڈورڈ سعید مرحوم کا کام ملاحظہ فرمائیے ) تاریخ میں بہت پیچھے جانے کا نہ تو یارا ہے اور نہ ضرورت۔ آپ گزشتہ تین دہایوں میں ان تحقیر آمیز ناموں کا جائزہ لیں جو استعمار نے محکوموں کے لئے گھڑے اور چسپاں کیے اور دیکھئے کہ ان میں سے کون سا ایسا لیبل تھا جو مسلمانوں نے صحیح ثابت نہ کیا ہو۔۔۔ استعمار نے کہا کہ یہ جمہوریت دشمن ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہاں یہ ایک غلط نظام ہے اور ہمارے مذھب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا یہ وحشی اور غیر انسانی رویوں کے حامل ہیں۔ ہم نے انسانی سروں سے فٹ بال کھیل کر اور بے گناہوں کا خون بہا کر ان کی بات کو سچ ثابت کیا۔ انہوں نے کہا یہ کرپٹ ہیں۔ ہم نے پہلے استعمار سے رقومات لے کر کرپشن کی پھر دوسرے گروہوں نے ان کہانیوں کو اچھال کر اس بات کو بھی سچ ثابت کیا۔ استعمار نے کہا کہ یہ انتہا پسند ہیں۔ ھم نے فرقہ پرست گروہوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی۔ انہوں نے گلیوں محلوں میں انسانی خون بہایا۔ لوگ جنازے لے کر سڑکوں پر بیٹھے۔ کافر کافر کے نعرے لگے۔ چند انسانوں کی بیٹھک کا اہتمام کرنے والی سبین محمود، انصاف کی کوشش کرنے والا راشد رحمان، بد امنی کو غیر اسلامی کہنے والا سرفراز نعیمی، کلام کی قوالی کرنے والا امجد صابری، دانشور اور رضا کار فاروق خان، رسالت مآب کے میلاد کی محفل، امام حسین کے عزا کی مجلس ہم سے کچھ برداشت نہ ہوا۔ یعنی استعمار نے ہمارے لئے جو بھی لیبل تراشا ہم نے خود کو اس کا مستحق و حقدار قرار دیا۔

اب ذرا اس کیفیت کا اندازہ لگائیے کہ جن ناموں یا لیبلز کو ھم اپنے لئے پسند نہیں کرتے مگرہمارا ہر قول و عمل ہر لیبل کا منہ بولتا ثبوت بن جائے…. اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے اجازت دیں کہ میں ایک کلینکل مثال کا سہارا لوں… نشے کے عادی افرد نشہ آور اشیا کے مضر اثرات سے بالعموم واقف ہوتے ہیں۔ وہ ان اشیا سے پیچھا چھڑوانا بھی چاہتے ہیں۔ اسی لئے علاج بھی کرواتے ہیں۔ مگر کچھ عادت اور کچھ ان اشیا پر ہونے والا جسمانی انحصار کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اور نشے کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ دوبارہ علاج ہوتا ہے۔ مگر عادت اور علت جان نہیں چھوڑتی۔ ایک نقصان دہ عادت سے جان چھڑوانے میں ہونے والی ہرناکامی شرمندگی، اپنے پر عدم اعتماد اور خود سے نفرت پر منتج ہوتی ہے۔ اس طالب علم نے ایسے افراد کو گھٹنوں میں منہ دے کر روتے دیکھا ہے۔ خود سے نفرت کا نتیجہ شدید جھنجلاہٹ اور غصے کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ھم انتہا پسند نہیں کہلوانا چاہتے مگر ہمارا ہر کام اس نام کو ہمارے لئے درست ثابت کرتا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ شرمندگی اور شدید جھنجلاہٹ کے شکار افراد اور گروھوں کے نام بتانے پر اصرار نہیں کیا جائے گا۔ شام سات سے رات گیارہ بجے تک ٹی وی دیکھئے۔ نام تصویروں کے ساتھ سامنے آ جائیں گے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments