تجھے سلگا کے سگریٹ میں، میں تیرے کش لگاتا ہوں


تم جو کہتی ہوچھوڑ دو سگریٹ

تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو۔۔۔

جون ایلیا کا یہ شعر گلی کوچوں میں پھرنے والےناکام عاشقوں کے دل کی ترجمانی کرتا ہے۔ آج کل ہر دوسرا شخص لڑکی سے دوستی کیلئے، محبوبہ کی بے وفائی سے تنگ آکر سگریٹ سے یاری کر لینا اپنا فرضِ اولین سمجھتا ہے ۔ اور ٹرین کے انجن کی طرح ادھر ادھر دھواں اڑاتا دکھائی دیتا ہے ۔

ا ک نظم ملاحظہ فرمائیں :

پھر ایک سگریٹ جلا رہا ہوں
پھر ایک تیلی بجھا رہا ہوں
تیری نظر میں یہ مشغلہ ہے
میں تو اس کا وعدہ بھلا رہا ہوں
سمجھنا مت اس کو میری عادت
یہ دھواں جو میں اُڑا رہا ہوں
یہ تیری یادوں کے سلسلے ہیں
میں تیری یادیں جلا رہا ہوں

اکثر لوگ سماجی دباؤ میں سگریٹ بیڑی پینا شروع کرتے ہیں، جیسے، کالج میں کچھ نوجوان جو سگریٹ پیتے ہیں، انھیں ‘کُول’ سمجھا جاتا ہے۔۔ ان کی دیکھا دیکھی بہت سے نوجوان سگریٹ پینے لگتے ہیں ۔

جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں وہ اپنی صحت کو داؤ پر لگاتے ہیں،جیسے جواری کو داؤ لگانے کی لت پڑ جاتی ہے، تمباکو نوشی کرنے والوں کا رویہ بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ہے۔

اگر اس دنیا کے نڈر لوگوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں پہلا نام کسی سگریٹ نوش کا ہو۔ انسان ارادہ کرے تو ہر علت قوتِ ارادی کی مدد سے ترک کر سکتا ہے سوائے سگریٹ نوشی۔

تمباکو نوش تو اس قدر نڈر ہے کہ موت جس سے ہر کوئی ڈرتا ہے، اسے روزانہ قسط وار پیسے دے کر خریدتا ہے اور پھر اس قسط وار موت میں ابدی سکون کی جانب لے جانے والا عارضی سکون تلاش کرتا ہے۔

سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگے

غمِ حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ

ہم سب جانتے ہیں کہ ہر طرح کا تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے، سگریٹ بیڑی پینا نقصان دہ ہے۔ پھر بھی لوگ سگریٹ بیڑی پیتے ہیں اور بڑی شان سے دھواں اڑاتے ہیں۔ اسی طرح تمباکو اور تمباکو نوشی کے نقصانات کے حوالے سے حکومتیں اور سماجی تنظیمیں لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ہیں، لیکن تمباکو نوش کےکانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔

آخر لوگ تمباکو نوشی کرتے کیوں ہیں؟ اس کا بھی ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے:

یہ سگریٹ شوق ہے، میری عادت نہیں

یہ جذبات جگاتی ہے تو پیتا ہوں

آدھی رات کے وقت، میں پاگل تو نہیں

کسی کی یاد ستاتی ہے تو پیتا ہوں

اس سگریٹ میں فضیلت تو کوئی بھی نہیں

یہ فکر مٹاتی ہے تو پیتا ہوں

میں جانتا ہوں، مجھے کچھ نہیں ملنا اس سے

یہ عمر گھٹاتی ہے تو پیتا ہوں

ایک ریسرچ سے سگریٹ نوشی کے ان نقصانات کا بھی پتہ چلا ہے، جو پہلے معلوم نہیں تھے۔ اس سے صرف پھیپھڑوں کا کینسر ہی نہیں بلکہ تیرہ اقسام کے دیگرکینسر کا خدشہ بھی ہے ۔ اندھا پن، ذیابیطس، جگر اور بڑی آنت کے کینسر جیسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

دراصل باہر آپ سگریٹ کو پی رہے ہیں ، اندر سے سگر یٹ آپ کو پی رہی ہے۔سگریٹ نوشی صرف سگریٹ پینے والے کو نہیں بلکہ اس کے ساتھیوں، دوستوں اور گھر والوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ بالواسطہ ا سموکرز کو براہ راست دھوئیں اور بالواسطہ دھوئیں دونوں سے خطرہ ہوتا ہے،

اور بیشتر صورتوں میں سگریٹ نوشی زندگی سے اس طرح چمٹ جاتی ہے کہ جان لے کر ہی دم لیتی ہے۔ مگربقول سگریٹ نوش۔ ۔ ۔

سگریٹ کے ایک کش کا مزہ تم کیا جانو
مشکلات میں سکون کا لمحہ ہے یہ
دباؤ سے نجات کا طریقہ ہے یہ
زمانے میں کول نظرآنے کا انداز ہے یہ
باس کےسامنے ادب اور ترقی کا نیا راز ہے یہ

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں دس سے چوبیس سال کی عمر کے تقریباً 2 ارب افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ جب کہ دنیا بھر میں 50لاکھ سے زائد افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

دھواں سگریٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن ِجان ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو

اصل میں تمباکو میں ایک کیمیکل ہوتا ہے ‘نکوٹین’۔ جب آپ سگریٹ کا دھواں اپنے اندر کھینچتے ہیں، توپھیپھڑوں کی تہیں اس دھوئیں سے نکوٹین لینا شروع کر دیتی ہیں۔ چند سیکنڈ کے اندر یہ نکوٹین اعصاب تک پہنچ جاتی ہے۔ نکوٹین کے اثر سے دماغ ڈوپامائن dopamine نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔جب بھی دماغ ڈوپامائن چھوڑتا ہے، تو بہت مزا آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کسی کام کا اجر ملا ہے۔ یعنی دماغ کو یہ اشارہ جاتا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پئیں گے تو آپ کادماغ محسوس کرے گا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ دماغ یہ جان بوجھ کر نہیں کرتا بلکہ وہ ایسا وہ نکوٹین کے اثر کی وجہ سے کرتا ہے۔

لیکن جلد ہی دماغ کو نکوٹین کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ آپ بار بار سگریٹ ، بیڑی یا سگار پیتے ہیں۔ یہ لت ٹھیک ایسی ہی ہوتی ہے، جیسے کسی منشیات کی لت، مثلا ہیروئن، نکوٹین کا نشہ اس قدر طاری ہوتا ہے کہ وہ آپ کے رویے کو کنٹرول کرنے لگتا ہے۔

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

تو صاحبو! ہوجاؤ ہوشیار، سگریٹ کے نشے کے مزے لینے والوں کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے ‘سن ٹیکس ‘ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔

سِن کامطلب ہے گناہ۔۔ زبر کے ساتھ سَن نہ پڑھیں جس کے معنی سورج اور بیٹا دونوں ہوسکتے ہیں ۔ ٹیکس کے نام سے بھی ہر ایک بخوبی واقف ہوگا، گھر کے افراد کتنے ہیں ، ان کی کیا ضروریات ہیں اور ان پر کیا خرچ آتا ہے اس میں تو اونچ نیچ ہوسکتی ہے ، لیکن ٹیکسوں کی اتنی تعداد و مقدار ہے ، کہ ایک آدھ بھول بھی جائے تو خیر۔۔ بلکہ نہیں ایسی کارروائی ہوتی ہے، کہ نانی یاد آجاتی ہے ۔

وفاقی وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز عامر محمود کیانی نے ایک سیمینار سے خطاب کے دوران سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کو خبردار کیا کہ حکومت سگریٹ اور دیگر تمباکو مصنوعات پر ‘سِن ٹیکس’ عائد کرے گی۔ بس بیان سامنے آتے ہی ہر طرف ہلچل مچ گئی ۔۔ منچلے ، دل جلے ، دانشور اور ہر اک نے ہی ایشو پکڑ کر سن ٹیکس تجویز کی خوب درگت بنائی ، کسی نے کہا ‘اگر حکومت تمباکو مصنوعات پر گناہ ٹیکس لاگو کرنے جا رہی ہے تو پھر ‘میک اپ’ پر تو دھوکا دہی ٹیکس لاگو ہونا چاہیے۔۔ گویا کہ خواتین بیچاریوں پر ڈائریکٹ اٹیک۔۔

ویسے اگر سگریٹ پر گناہ ٹیکس لگے گا، تونوجوانوں کے شیشے پر گناہ صغیرہ ٹیکس اور بزرگوں کے گڑگڑ والے حقے پر گناہ کبیرہ ٹیکس تو ہونا ہی چاہیے۔

خیر! حکومت نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ گناہ ٹیکس کب کہاں کیسے کس کس پر لگایا جائے اور لوگوں کوسگریٹ نوشی اور فضول خرچی سے کیسے روکا جائے ، امریکی آن لائن ڈکشنری ویبسٹرکے مطابق ‘سِن ٹیکس’ کی اصطلاح کے استعمال کے شواہد 1957 سے ملے ہیں۔

یہاں ہم یہ بتائیں کہ ‘سِن ٹیکس’ ایک معاشی اصطلاح ہے۔یہ وہ سیلز ٹیکس ہے، جو اُن مصنوعات پر عائد کیا جاتا ہے، جو معاشرے اور افراد کے لیے کسی نہ کسی طور پر نقصان دہ ہوتی ہیں۔ان اشیاء میں سگریٹ، تمباکو مصنوعات، الکوحل، منشیات، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، کافی اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ اب اگر اس فہرست پر غور کریں تو ہم آپ سمیت جو تمباکواستعمال نہیں کرتے وہ بھی گناہ گاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔یہ تو ہرگز نہیں سمجھئے کہ گناہ کرتے جائیے ٹیکس بھرتے جائیے۔ ایک تو سگریٹ صحت کے لئے مضر ہے، پھر اپنی بربادی پہ حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرو دلچسپ معاملہ ہے۔۔ تاہم پاکستان وہ پہلا ملک نہیں ہے، جہاں یہ ٹیکس لگانے کی بات کی گئی، لیکن شکر کریں کہ یہ ٹیکس صرف تمباکو مصنوعات پر ہی لگایا جارہا ہے۔۔

نامعلوم شاعر کی نظم ملاحظہ فرمائیں اور سوچیں ،کہیں آپ بھی تو ان افراد میں شامل نہیں ؟

میں سگریٹ کو ہتھیلی پر الٹ کر خالی کرتا ہوں
پھر اس میں ڈال کر یادیں تمھاری خوب ملتا ہوں
ذرا سا غم ملاتا ہوں
ہتھیلی کو گھماتا ہوں
بسا کر تجھ کو سانسوں میں
میں پھر سگریٹ بناتا ہوں
لگا کر اپنے ہونٹوں سے
محبت سے جلاتا ہوں
تجھے سلگا کے سگریٹ میں
میں تیرے کش لگاتا ہوں
دھواں جب میرے ہونٹوں سے نکل کر رقص کرتا ہے
میرے چاروں طرف کمرے میں تیرا عکس بنتا ہے
میں اس سے بات کرتا ہوں
وہ مجھ سے بات کرتا ہے
یہ لمحہ بات کرنے کا بڑا انمول ہوتا ہے
تیری یادیں تیری باتیں بڑا ماحول ہوتا ہے

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza