حیا نہیں ہے ’فلانے‘ کی آنکھ میں باقی


\"farnood\"یہ کوئی پہلا واقعہ ہے؟ یا پھر کوئی انوکھا واقعہ ہے؟ یادش بخیر، کوئی تیس برس قبل اسی پاکستان کے ایک فاضل عالمِ عصر نے یہ ارشاد کیا تھا

’’عمران خان بالنگ کراتے ہوئے گیند کو جو ران پہ رگڑتا ہے یہ مناسب نہیں ہے، یہ دعوتِ گناہ کے زمرے میں آتا ہے‘‘

ایک بات پہ ذرا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ آج سے پندرہ برس قبل ہمارے روایت پسند بزرگ جس وضع قطع کی وجہ سے خواتین کو فحاشی کا چلتا پھرتا اعلان کہتے تھے، آج اس سے کہیں زیادہ روایت شکن وضع قطع کی خواتین کے لیے بھی وہ اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کر پاتے۔ مجھے آج بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ شٹل کاک برقعے کی جگہ عبایا نے لینا شروع کی تو ایک بھونچال پیدا ہوگیا تھا۔ جمعے کے وہ خطبے آج بھی سماعتوں میں گونجتے ہیں کہ یاد رکھنا ! یہ جو عبایا ہے یہ برہنگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ عبیا کے اندر ہی پھر دوسرا بھونچال تب آیا کہ جب چست عبایا کی روایت پڑی۔ اب تو مجھ ایسے سیاہ کار کے لیے ایک نیا اخلاقی بحران پیدا ہوگیا ہے، کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ اس کا کیا تجزیہ کروں۔ بھلے دنوں کی بات ہے جب شام کو ورزش کے لیے ایف نائن پارک کے پھیرے لگاتا۔ ایف ٹین چوک کے کسی پراسرار کونے میں عبایا پوش خواتین پہ نگاہ پڑتی تو بدگمانی سی ہونے لگتی، لیکن سامنے سے ورزشی ملبوس میں دوڑتی چلی آنی والی کسی خاتون پہ نگاہ پڑتی تو بدگمانی کا ہزارویں درجے میں بھی امکان پیدا نہیں ہوتا۔ یہ میرا ہی معاملہ نہیں، سماج کی عام حقیقت ہے، جو ہر کوئی دیکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حیا ہمیشہ قائم رہتی ہے، تصورات بدل جاتے ہیں۔ تہذیبی نرگیسیت کے شکار کچھ لوگ مگر تاخیر کا شکار رہتے ہیں اور درست نتیجے پر پہنچنے میں صدیاں لگا دیتے ہیں۔ ایک صدی بعد اسی نتیجے پر پہنچ کر ہی رہتے ہیں، مگر سماج وہاں سے بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو معاملہ دنیا میں بحث سے خارج ہوکر ایک اور مدار کی طرف نکل چکا ہوتا ہے، ہم اسے تازہ اخلاقی و فکری بحران سمجھ کر مزاحمت کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں محترم سراج الحق صاحب نے مجمع میں ایک واقعہ سنایا۔ فرمایا کہ دوران سفرجہاز میں جو نشست مجھے دی گئی تھی وہاں کوئی خاتون بیٹھی تھیں۔ میں نے فضائی میزبان سے گزارش کی کہ کوئی دوسری نشست اگر ہوجائے۔ مجھے بالکل آخر کی ایک نشست پہ بٹھادیا گیا، مگر کچھ دیر میں ایک بے پردہ اور بال بریدہ خاتون جہاز میں داخل ہوئیں، چلتی چلی آئی اور آکر ساتھ والی نشست پہ بیٹھ گئیں۔ بارش سے بچے تو پرنالے میں آگئے۔ مجھے پریشانی لاحق ہوئی کہ میں کہاں پھنس گیا اور سوچتا رہا کہ یہ کیسی خاتون میرے ساتھ بیٹھ گئ، اب خدا نخواستہ کوئی موبائل سے تصویر ہی نہ لے لے۔ جب طیارے نے اڑان بھری تو خاتون نے اپنا بیگ اٹھایا، اس میں سے تسبیح نکالی، وظائف کی ایک کتاب نکالی، کچھ دیر وظائف پڑھتی رہی اور پھر طیارے کے اترنے تک وہ تسبیح پھیرتی رہیں۔ مجھے دل ہی دل میں ندامت ہوئی کہ میرا گمان کیا تھا اور یہاں معاملہ کیا نکلا۔ یہاں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک جماعت کا سربراہ سماجی لحاظ سے کس قدر تاخیر کا شکار ہے، مگر میں نے یہاں ایک بہت ہی مختصر سا سوال رکھ کر آگے کو بڑھنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس خاتون نے تسبیح نہ نکالی ہوتی تو۔؟

گزشتہ برس ہی عامر خان کی فلم ’’پی کے‘‘ آئی تھی۔ سماجی ذرائع ابلاغ کی ہر تیسری دیوار گواہ ہے کہ اس فلم میں زیادہ دلچسپیاں ٹھیٹھ علمائے کرام اور مقدس ہستیوں نے لی تھیں۔ کچھ نے باقاعدہ سینما کی اسکرین پہ دیکھی، کچھ نے ٹورنٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے دیکھی، کچھ نے کیبل پہ دیکھی اور جو تقوی طہارت میں مثالی تھے انہوں نے یوٹیوب پہ دیکھی۔ یوٹیوب پہ دیکھی جانے والی بے لباسیوں پہ کوئی خاص پکڑ نہیں، اور پھر بذریعہ وٹس ایپ پہنچنے والی کسی ’’فحاشی‘‘ پہ نگاہیں نچاور کرنے کی قطعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔ پی کے فلم کی میں نے فقط مثال دی ورنہ میں اپنے گرد وپیش کے ان پارساؤں پہ یہ تہمت کسی بھی طور نہیں دھر سکتا کہ عام طور سے فلمیں دیکھنا ان کے معمولات میں سے نہیں ہیں۔ سوال دو پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو پاکیزہ نگاہیں بالنگ کراتی لڑکی کی آر پار نکل گئیں، ان نگاہوں نے وہ پی کے فلم کس تناظر میں دیکھی ہوگی جس میں انوشکا شرما ہیروئین کا کردار کررہی ہیں؟ اگر ٹھیک تناظر میں ہی دیکھی ہو تو پھر دوسرا سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ جن کا ایمان انوشکا شرما کی رعنائیوں سے نہیں ڈگمگایا وہ ایک خاتون کی چند ساعتوں کی دوڑ سے کیسے پامال ہوگیا۔ اگر آپ خالص کتابی اور نصابی علم کو لیکر بیٹھ ہی گئے ہیں تو پھر بتلایئے کہ اس ایک اشتہار کے علاوہ باقی کے اشتہارات کتاب کے اصولوں پہ کیا پورا اترتے ہیں۔؟ کیا سماجی ذرائع ابلاغ پر آپ کی مخلوط سرگرمیوں سے اصول پامال نہیں ہورہے؟ کیا ان اشتہارات سے اور اپنی سرگرمیوں سے آپ کبھی بدگمانی کا شکار ہوئے۔؟ نہیں نا؟ یہی سب اگر آج سے تیس برس قبل ہورہا ہوتا تو؟ اپنے احساسات کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟

فحاشی کا جو تناظر زیر بحث ہے، اس میں انسان کے اپنے تصور اور تخیل کو دخل ہے۔ تصور اور تخیل کی حدود صرف تربیت اور روایت طے کرتی ہیں، اس کے سوا دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو تصور کی رفعتوں اور وسعتوں پہ قابو پا سکے۔ اگر نگاہِ تصور کی آرائش نہیں ہوئی تو سات پردوں میں بیٹھی کسی حسینہ کا ایکسرے لے لینا بھی کوئی مشکل نہیں، نگاہ بلند ہو تو منظر میں اور بھی بہت منظر مل جاتے ہیں ایک منظر کے سوا۔ تصور پہ کس کو کیا زور؟ دو برقع پوش خواتین فاتحہ پڑھنے پیر بابا کے مزار پہ گئیں۔ فاتحہ پڑھ کے لوٹیں تو ایک خاتون نے دوسری کو کہنی مار کے کہا کہ وہ سامنے ایک جوانِ رعنا دکھائی دے رہا ہے تمہیں؟ یہ پیر بابا کا بیٹا ہے۔ خاتون نے سنا تو شرم سے پانی پانی ہوگئی، ساتھی خاتون کو زور سے کہنی مار کے آہستگی سے کہا، چپ ہوجاؤ، کوئی سن لے گا۔ جس خاتون نے انکشاف کیا تھا وہ حیرت زدہ رہ گئی کہ اس میں ایسا کیا غلط تھا کہ جو کسی سننے والے کو ناگوار گزرے گا۔ استفسار کیا تو پانی پانی ہوجانے والی خاتون نے کہا ’’بھئی تمہارا دماغ خراب ہے یہ پیر بابا کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟‘‘ خاتون نے کہا قسم لے لو یہ پیر بابا کا بیٹا ہے۔ سننے والی خاتون کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا، ساتھی خاتون کا ہاتھ بھینچتے ہوئے پوچھا

’’تو یعنی پیر بابا بھی یہ کام کرتے تھے؟‘‘

گناہ کے امکانات سے بچنے کے لیے دعوت اسلامی کے امیر جناب الیاس عطار قادری رضوی دام اقبالہم نے جو ایجادات فرمائی ہیں ان میں ایک مدنی تکیہ بھی ہے۔ قفلِ مدینہ نام کی عینک کا بھی شاید ہی آپ نے سنا ہو جو بدنظری سے بچانے کیلیے تخلیق کی گئی ہے۔ مرکز فیضانِ مدینہ پر تکیے بکتے ہوئے دیکھے تو پوچھے بنا رہ نہ پایا کہ اس تکیے میں کیا خاص بات ہے جو بندگان توحید اس پہ ٹوٹے جارہے ہیں؟ بتانے والے نے بتایا کہ موٹر سائیکل سواروں کو گناہ سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تکیہ تخلیق پایا ہے۔ مگر کیسے؟ بتایا گیا کہ ڈبل سواری کے دوران اس تکیے کو بیچ میں رکھنے کا حکم ہے تاکہ شیطان کی جگہ نہ بن سکے۔ آپ یقین جانیئے اول تو جھٹکا لگا کہ موٹر سائیکل پہ دو سواروں کے بیچ شیطان کا کیا کام، پھر جونہی سمجھ آیا تو حضرت قادری صاحب کی اس حسنِ نیت پہ بھی میرے پاس لاحول پڑھنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دس برس تک موٹر سائیکل کی ہمہ جہت عیاشیوں کا لطف لینے والا مجھ ایسا سیاہ کار کھڑا یہی سوچتا رہا کہ شیطان کی جس واردات کی طرف میرا گمان کبھی پل بھر کو نہیں گیا حضرت قادری صاحب کا کیسے چلا گیا؟ نصابی علم کے مطابق قادری صاحب کی بات درست ہی ہوگی، مگر غیر نصابی طور پہ کیا آپ بھی اس کی تائید کرنے کی ہمت کرپائیں گے؟ یہ تکیہ جس نے ثریا سے بھی بلند کسی تصور سے جنم لیا ہے، یہ گناہ سے روک رہا ہے یا پھر کسی گناہ کے امکان کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ میرا گمان تو اس امکان کی طرف پہلی مرتبہ اسی تکیے سے گیا۔ باخدا نجی مواصلاتی کمپنی کا اشتہار میری اور دوستوں کی نگاہ سے ہزار بار گزرا، مگر اس اشتہار کو بغور میں نے تب ہی دیکھا جب صحافتِ اسلامیہ سے شور اٹھتا ہوا سنا۔ قسم لے لیجیے کہ میں اب بھی اشتہار میں وہ پہلو دریافت کرنے سے عاجز ہوں جن پہلووں کا چرچا ہے۔ اب اس کا کیا تجزیہ کیا جاوے؟ ایک خاتون نے کہا کہ اس اشتہار میں ایسا کیا ہے ؟ استاد محترم نے برجستہ جواب دیا

’’خاتون رہنے دو تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے‘‘

میں اچھے لوگوں کی صحبت میں بہت رہا ہوں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ایک پارسا ہستی کے لیے یہ گمان کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے کہ ایک عورت کے وجود میں جنس کے سوا بھی کچھ موجود ہے۔ ان حلقوں میں ابھی وہ وقت آنا باقی ہے جب انہیں یقین ہوگا کہ عورت کی ٹانگیں اور بھی بہت کچھ کرنے کے کام آتی ہیں، مثلا دوڑلگانا۔ عورت کے ہاتھ بال کرانے کے کام بھی آتے ہیں، مگر خدا جانے عورت کے ہاتھ میں گیند دیکھ کر یہ کس مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب خود دیکھیئے کہ آج سے پچیس تیس برس قبل جس لمحے شائقین کرکٹ ٹی وی پہ ٹکٹکی باندھ کر منتظر تھیں کہ عمران کی ان سوئنگ دیکھیں، وکٹ اڑاتا دیکھیں، میچ جتواتا دیکھیں، اسی لمحے دور لاھور کے پوش علاقے میں ایک شیخ مکتب ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر عمران خان کی ران پہ رگڑ کھاتی ہوئی گیند دیکھ رہا تھا۔ یعنی پورے میچ میں وہ اپنی عالمانہ وعارفانہ صلاحیتیں اس تحقیق پہ صرف کرتا رہا کہ گیند پہ تھوک لگانا کہیں اسراف کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ اس بے مصرف لگنے والے تھوک کا روز حشرحساب کون دے گا؟ کوئی بتلائے گا کہ بدنظری کسے کہتے ہیں؟ اگر نگاہ کے پڑجانے کو ہی بدنظری کہتے ہیں تو پھر پارساؤں کا سماجی ذرائع ابلاغ، ٹی وی چینلز، ڈراموں، فلموں، اشتہارات، اسپتالوں اور بینکوں میں فقط نگاہ ہی پڑنے سے معاملہ بدنظری کیوں نہیں کہلاتا؟ ایک سیمینار میں ایک مذہبی راہنما کے فرزند پہ طہارت طاری ہوئی تو بد نظری کی طرف توجہ دلائی۔ عرض کیا کہ

’’میاں ! یہ بدنظری جیسی بدذوقیاں پارساؤں کو مبارک، ہم تو خوش نظری فرماتے ہیں۔‘‘

معاملہ پتہ ہے کیا ہے؟

آپ سامنے کی ایک ایسی سچائی سے لڑتے ہیں جس سچائی کی تائید میں آپ کی نگاہ خود مصروف کار ہوتی ہے۔ ایسی سچائیوں سے انکار اس احساس کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ہم یقین دلا سکیں کہ ابھی ہماری آنکھ میں حیا کا پانی باقی ہے۔ سچ مگر یہ ہے کہ یہ انکار دراصل باطن کو آشکار کر رہا ہوتا ہے۔ مرد خود کیسے کہہ سکتا ہے کہ میری آنکھ میں حیا کے تار بکھرے ہیں۔ مرد کی آنکھ میں حیا کی گواہی عورت کی آنکھ کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں دے سکتی۔ آنکھوں پہ دستار کا شملہ لپیٹ لیں تو بھی مرد کی نگاہ میں پڑے ہوئے تنکے کو عورت کی حِس بھانپ لیتی ہے۔ بات فقط تناظر کی ہے۔ پیٹ سے سو چیں تو چاند کو دیکھ کر بھی روٹی کا خیال آتا ہے۔ ہاتھ میں کانٹا لیے ساحل پہ بیٹھے ہوں تو دریاں میں ڈولتے تنکوں پہ بھی مچھلی ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ یہ جال رکھ دیجیئے، یقین جانیئے آپ کی نگاہ یہ گواہی دے گی کہ دریا میں مچھلی کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ آپ کی نگاہ اگر ناف کے گرد ونواح میں اٹک کر رہ گئی ہے تو اس میں قصور یقینا آپ کے زاویہ نگاہ کا ہے۔ ناف کا محل وقوع تو بدلنے سے رہا، زاویہ نگاہ ہی بدلنا پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

حضرتِ اقبال نے تو جب بھی کہا کمال ہی کہا، مگر ترنگ میں ہوتے تو پھر کچھ یوں بھی کہہ جاتے تھے

امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو

یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments