چینی ڈاکٹر کا جینیاتی تجربہ اور ڈیزائنر بچوں کی دنیا


کچھ دن پہلے ایک خبر سنی کہ ایک چینی تحقیق دان نے دو جڑواں بچیوں‌ کی جین ایڈیٹنگ کی۔ اس خبر نے سائنس کی دنیا میں‌ کھلبلی مچادی۔ اگر ان کا بیان درست ہے تو یہ دو بچیاں‌ پہلی انسان ہیں جن کے ڈی این اے میں‌ مصنوعی طریقے سے تبدیلی کی گئی۔ اس خبر کے آنے کے بعد میں‌ نے اپنے دو ٹین ایجر بچوں‌ اور ان کے دوستوں سے اس بارے میں‌ بات چیت کی تاکہ اس تجربے کے بارے میں‌ نئی نسل کے خیالات معلوم کیے جائیں۔

میں: بچوں‌، کیا آپ لوگوں‌ نے یہ خبر پڑھی کہ ایک چینی ڈاکٹر نے جڑواں‌ بچیوں‌ کے ڈی این اے میں‌ ردوبدل کی ہے؟

بچے: نہیں‌، ہم نے یہ خبر نہیں‌ سنی۔

میں: اچھا یہ رہا اس خبر کا لنک۔ اس کو توجہ سے پڑھیں‌ پھر مجھے بتائیں‌ کہ آپ لوگوں‌ کا اس بارے میں‌ کیا خیال ہے۔

میں: کیا آپ لوگ کرسپر ٹیکنالوجی کے بارے میں‌ جانتے ہیں؟

بچے: جی ہاں‌، ہمارے اسکول میں‌ کرسپر ٹیکنالوجی پر کانفرنس ہوئی تھی جہاں‌ ہم نے اس کے بارے میں‌ سیکھا۔

کرسپر ٹیکنالوجی کیا ہے؟

“CRISPR” (pronounced “crisper”) stands for Clustered Regularly Interspaced Short Palindromic Repeats, which are the hallmark of a bacterial defense system that forms the basis for CRISPR-Cas9 genome editing technology.

قارئین کو یہ پڑھ کر شائد حیرانی ہو کہ کرسپر طریقے کو آج کل کے سائنسدانوں‌ نے ایجاد نہیں‌ کیا بلکہ اس کو لاکھوں‌ سالوں‌ سے بیکٹیریا استعمال کرتے آئے ہیں اور سائنسدانوں‌ نے جین میں‌ ردو بدل کا یہ طریقہ بیکٹیریا سے سیکھا ہے۔ جب کوئی وائرس ایک بیکٹیریم پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کے ڈی این اے میں‌ شامل ہوجاتا ہے تو بیکٹیریم کے مدافعتی نظام کی توجہ ڈی این اے کے اس حصے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ وہ اس حملہ آور وائرس کے ہوبہو اپنے اندر پروٹین بناتا ہے جس کے ساتھ ایک اینزائم جڑا ہوتا ہے۔ یہ مرکب بیکٹیریم کے اندر پہرا دیتا ہے اور جیسے ہی اس سے ملتا جلتا وائرس دوبارہ اس کے اندر شامل ہو یہ اس کو پہچان کر اس کو کاٹ دیتا ہے جس سے وائرس کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس طریقے کو کرسپر کہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر بیکٹیریم کا بیماریوں‌ کے خلاف مدافعتی نظام ہے۔

Dr. He Jiankui speaks at Second International Summit on Human Genome Editing

سینزہین چائنا میں‌ واقع سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر ہی جیانکی نے ہزاروں سائنسدانوں کا سامنا کیا اور اپنے تجربے کا دفاع کیا۔ وہ یہ تجربہ کرنے والے پہلے سائنسدان بن گئے۔ یہ ایک جرات کا کام ہے کیونکہ ابھی تک دنیا کے سائنسدان اس بات پر متفق نہیں‌ ہوئے تھے کہ انسانوں‌ میں‌ ان تجربات کا آغاز کیا جائے۔ ریسرچ کرنے کا ایک لمبا چوڑا پروسیجر ہوتا ہے جس میں‌ ایک تجربے کے فائدے اور نقصانات دیکھ کر پہلے جانوروں‌ پر ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی انسانوں‌ کی باری آتی ہے۔ ان بچیوں‌ کے والدین نے ان کو اس تجربے کی اجازت دے دی تھی۔ ان بچیوں‌ کے باپ کو ایج آئی وی کی بیماری تھی جس کی وجہ سے یہ حمل ٹیسٹ ٹیوب میں‌ ٹھہرایا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں بغیر احتیاطی تدابیر کے جنسی تعلقات سے ان کی بیوی اور بچوں کو بھی ایچ آئی وی کی انفیکشن لگ سکتی تھی۔ دیگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چونکہ باپ کا اینٹی وائرل میڈیسن سے علاج چل رہا تھا، ان بچیوں‌ کو یہ بیماری ہوجانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا اور ان پر یہ تجربہ نامناسب ہے۔ سائنسدان اس بات پر بھی ناخوش تھے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان بچیوں‌ کے ڈی این اے میں‌ کچھ ایسی تبدیلیاں‌ بھی ہوسکتی تھیں جن کی وجہ سے آگے چل کر ان کو کوئی بیماری ہوجائے یا ان کے کوئی ضروری اعضاء غائب ہوجائیں۔ کرسپر سے کاٹا ہوا ڈی این اے کا حصہ غلط طریقے سے بھی جڑ سکتا تھا۔

ہم جانتے ہیں کہ کچھ انسانوں کو ایچ آئی وی کی بیماری نہیں‌ لگ سکتی کیونکہ ان کے اندر وہ جین سی سی آر 5 غائب ہے جس کی وجہ سے خلیے پر وہ دروازہ بنے جس سے ایچ آئی وی کا وائرس اندر داخل ہو سکے۔ اس جین کی دریافت بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ برلن میں‌ ایک مریض تھا جس کو ایچ آئی وی کی انفیکشن تھی۔ اس مریض کو لیوکیمیا یعنی کہ خون کے سفید جسیموں‌ کا کینسر ہوگیا تھا۔ جب سائنسدانوں‌ نے اس کو ہڈیوں‌ کے گودے کا ٹرانسپلانٹ لگایا تو اتفاق سے یہ عطیہ دینے والے آدمی میں‌ سی سی آر 5 کا جین کام نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے اس عطیہ لینے والے آدمی میں‌ ایچ آئی وی کی انفیکشن ختم ہوگئی تھی۔ اس اتفاق سے ایک اہم سائنسی دریافت میں‌ مدد ملی۔ اس جین کے نہ ہونے سے کسی انسان کی باقی صحت پر کچھ اثر نہیں‌ پڑتا ہے۔ اس کے بارے میں‌ کسی نے یہ مزاحیہ مثال دی کہ ناروے کی فوج میں‌ سے ایک بندوق غائب ہو تو اس کو کچھ فرق نہیں‌ پڑتا۔

میں: بچوں، آپ لوگو‌ں‌ کا اس تجربے کے بارے میں‌ کیا خیال ہے؟

بچے: ہمارے خیال میں‌ یہ تجربہ کرنا بیماری یا معذوری ختم کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس کو ڈیزائنر بچے بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے۔

میں: لیکن بچو، اگر ہمارے پڑوسی اپنے بچوں‌ کے جین میں‌ ردوبدل کرکے ان کو لمبا، پھرتیلا یا ذہین بنانے لگیں‌ تو مجھے کیوں‌ پیچھے رہنا چاہئیے؟ میں بھی چاہوں‌ کی میرے بچوں‌ کو بھی شروع سے یہ فائدے حاصل ہوں۔

بچے: لیکن ایسا کرنے سے جو لوگ امیر ہیں وہ اپنے بچوں‌ کو پیدائشی طور پر مزید بہتر بنائیں‌ گے اور غریب لوگ یہ نہیں کر پائیں‌ گے، اس طرح‌ امیر اور غریب کے درمیان مزید فاصلہ ہوجائے گا۔

بچے: اگر دوسرے ملکوں‌ کے لوگ ایسا کریں گے تو امریکہ کو بھی کرنا پڑے گا بالکل اسی طرح‌ جیسے دوسرے ملک ایٹم بم بناتے ہیں تو ہمیں بھی بنانا پڑتا ہے۔

میں: ایک مرتبہ پینڈورا کا باکس کھل جاتا ہے تو وہ پھر بند نہیں ہوسکتا۔ یہ محض وقت کا سوال ہے۔ مستقبل کے انسان ایسا کریں‌ گے۔

بچے: اچھا ہے کہ یہ وقت تب آئے گا جب ہماری نسل ختم ہوچکی ہوگی کیونکہ ہم ایسی دنیا کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

یہ بات واضح ہے کہ انسانی جین میں‌ ردو بدل کے تجربے سے بہت سارے اخلاقی اور طبی سوالات ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں جن کے جواب آسان نہیں ہوں‌ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).