پمز ہسپتال میں الگ کمرے بنوانے کی بڑی وجہ خواجہ سرا روشنی نہ رہیں


روشنی

روشنی کو آخری سٹیج کا کینسر تھا جس کے باعث وہ چل پھر نہیں سکتی تھیں

خواجہ سرا روشنی، جن کے پمز ہسپتال میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خاصہ احتجاج دیکھنے میں آیا، جمعہ کو اپنے گھر میں انتقال کر گئیں۔

ان کی نزدیکی دوست اور سماجی کارکن نایاب علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کی موت کی تصدیق کی۔

نایاب نے کہا کہ پمز ہسپتال میں الگ کمرے بنوانے کی بڑی وجہ روشنی تھی اور ’وہ اب نہیں رہی۔‘

انھوں نے بتایا کہ روشنی کو آخری سٹیج کا کینسر تھا جس کے باعث وہ چل پھر نہیں سکتی تھیں اور زیادہ تر کاموں کے لیے ان کو ویل چیئر کی ضرورت پڑتی تھی۔

’اکتوبر 27 کو روشنی کو پیشاب آنا بند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ خاصی تکلیف سے گزر رہیں تھی۔ ہم لوگ اس کو لے کر پمز گئے۔ لیکن وہاں ہر ڈاکٹر دوسرے کے پاس یہ کہہ کر بھیج رہا تھا کہ یہ اس کا شعبہ نہیں ہے۔‘

نایاب نے بتایا کہ وہ لوگ تنگ بھی ہو رہے تھے لیکن روشنی کی حالت دیکھتے ہوئے ایک اور ڈاکٹر کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ ’ابھی ہم جارہے تھے کہ گراؤنڈ فلور پر موجود ایک گارڈ نے ہماری ایک اور ساتھی ندیم کشش کے ہاتھ سے موبائل فون چھین لیا جس پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اور بات افسران تک پہنچ گئی۔

پمز ہسپتال میں خواجہ سراؤں کا ورڈ

پمز ہسپتال میں خواجہ سراؤں کا ورڈ

اس واقعے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خاصہ ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ یاد رہے کہ ‫پمز میں 27 اکتوبر کو پیش آنے والے اس واقعے کا نوٹس وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری نے لیا اور خواجہ سراؤں کے لیے الگ کمرے بنوانے کی ہدایات جاری کیں۔ ‬

‫نایاب نے کہا کہ ’اگر ہم سب بروقت شور نہ مچاتے تو آج ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی الگ کمرے بنوانے کی بات پر کوئی عمل ہوتا۔‘‬

‫روشنی کو آخری سٹیج کا کینسر تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ خواجہ سرا کہتے ہیں کہ اکثر کینسر کے آخری مرحلے کے مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا لیکن ’جس طرح سے ہمیں ذلیل کیا جاتا رہا ہے اور اس دن بھی کیا گیا، اس رویے کو بدلنا ہوگا۔‘‬

‫خواجہ سرا پاکستان کے چند غیر محفوظ طبقوں میں سے ایک ہیں جن کے اوپر حملوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔‬

‫خواجہ سراؤں کی آبادی کی حوالے سے مختلف اعداد و شمار زیرِ بحث رہتے ہیں جن میں سے اکثر سے خود ان کی برادری بھی اتفاق نہیں کرتی۔‬

‫ان میں سے ایک پاپولیشن اینڈ ہاؤسنگ سکیم کے 2017 کے اعداد و شمار ہیں جن میں ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد صرف 10000 بتائی گئی ہے۔ اس بات پر خواجہ سراؤں کا موقف ہے کہ ان کی صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہی آبادی 6000 افراد پر مشتمل ہے۔‬

‫اب تک پمز اسلام آباد کا پہلا ہسپتال بتایا جا رہا ہے جہاں کے پرائیوٹ وارڈ کے 19 کمروں میں سے 2 کمرے خواجہ سراؤں کے لیے رکھے گیے ہیں۔ اور کہا جا رہا ہے کہ باقی صوبوں میں بھی اسی طرح کی کاوش کی جائیگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp