مثبت رپورٹنگ ہو تو ایسی!


کل سے سوچ رہی ہوں بلاگ لکھنے کا۔ ایک تو جب سے گورے ملک میں آئی ہوں اضطراب ہی نہیں ہوتا۔ درد کی وہ شدت محسوس نہیں ہوتی۔ تخلیق کا یہی المیہ ہے۔ چاہے وہ ایک نئی جان کا دنیا میں آنا ہو یا کسی آرٹ کے فن پارے کا کینوس پر منتقل ہونا تخلیق کا عمل ہمیشہ ہی دکھ دیوا ہوتا ہے۔ درد سے اٹا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں ابھی بے چینی کی وہ کیفیت نہیں آئی جو صبح شام اس عمل میں محو رکھے۔

یوں تو جب سے آئی ہوں صبح کو کچھ کھینچتا ہے سبزہ زاروں کی طرف۔ کھلے آسمان میں سانس لینی کی عجیب سی خواہش ہوتی ہے۔ بس رکا نہیں جاتا جانا ہی پڑتا ہے۔ آج خدا جانے طبیعت میں کیسی سستی ہے کہ بستر سے اٹھا ہی نہیں جا رہا۔ آنکھیں مند ہوئی جاتی ہیں۔ خدا نہ کرے لیکن یہ کسی خوف کا الارم لگتا ہے۔ ایسی کمزوری پہلے کبھی نہیں ہوئی۔

لیکن مشرقی عورت ہوں نا۔ ہمیشہ سب ہرا ہی دکھاتی ہوں۔ ابھی والدہ کا میسج آیا کہ کیا کر رہی ہو تو یہی کہا کہ باہر دوڑ لگا رہی ہوں۔ آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ کبھی ان کی یاد بھی آئے تو یہی کہتی ہوں کہ اپنے گھر میں بہت خوش ہوں۔ میکہ تو بھول سا گیا ہے۔

کچھ یہی حال ہماری والدہ کا بھی ہے۔ چھوٹے بھائی کی پیدائش کے پانچویں دن ہی کچن میں موجود تھیں۔ نانی جان کو خط میں لکھا کی آرام بھی بھرپور ہے اور خوراک بھی بہت اچھی ہے۔ بھلی چنگی ہوں۔ منا بھی بالکل تنگ نہیں کرتا۔ نانی جان بھی تو انہی کی ماں تھیں۔ دل کے دورے پر اسپتال داخل ہوئیں۔ اور یہی کہتی رہیں کہ بالکل ٹھیک ہوں۔ اور یہی کہتے ہوئے دنیا سے چل بسیں۔

یہ تو محض کچھ مثالیں ہیں۔ شوہر سے مار کھا کر آنے والی ہماری وہ سہیلی جو کنسیلر سے چہرے کے نشان چھپاتی تھی ہنستی تھی اور یہی کہتی تھی کہ ’ع‘ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ سسرال سے جنازہ نکلتا ہے اور والدین کو یہی لگتا ہے کہ سب ٹھیک تھا۔ بس خدا کی مرضی تھی۔ آخر کبھی بری پکچر جو پیش نہیں ہوئی۔ تربیت پر آنچ نہ آنے دی۔ سب کو گھر کے حالات کی بھنک تک نہ لگنے دی۔

معیشت کے دم توڑنے اور صبح شام جبری گنشدگیوں کے باوجود مثبت رپورٹنگ کی فرمائش کرنے والے عالی مقام۔ جرنیل آصف غفور صاحب کو یہی برادرانہ مشورہ دیں گے کہ یہ مردوں کے بس کا روگ نہیں۔ ان کا تو زکام بھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ میڈیا سے جو کام آپ لینا چاہ رہے ہیں وہ مردوں کے بس کا نہیں ( م پر زبر سمجھا جائے۔ پیش ڈال کر مدعا سیریس ہو جائے گا) ۔ ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ( وکن جوگے وی نئیں ) ۔ میڈیا کی باگ ڈور اب ملک کی عورتوں کے حوالے کی جائے کیونکہ یہ انہیں سے ہو پائے گا۔ چاہے روپیہ گر کر پاتال میں چلا جائے، ملک میں کوئی اقلیت سر اٹھانے کے قابل نہ رہے، ملا پورا ملک تین دن میں راکھ کر ڈالیں، صحافی نوکریوں تو کیا جان سے بھی ہاتھ دھونے لگیں، پورا ملک سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا جائے، کشکول ہماری شناختی علامت بن جائے، اقوام عالم میں ہماری سب سے ممتاز پہچان دہشت گردی بن جائے، لیکن میڈیا سب ہرا دکھائے گا۔

مثبت رپورٹنگ کی وہ عظیم مثال قائم ہو گی کہ حقیقت جو بھی ہو رپورٹ صرف اچھا ہی کیا جائے گا۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ جتنے بھی گھروں کا چولہا ٹھنڈا ہو ہر طرف قورمہ اور بریانی ہی دکھایا جائے گا۔ کسی پر قاتلانہ حملہ بھی ہو تو اسے غفلت ہی ثابت کیا جائے گا۔ استادوں کو ہتھکڑیاں بھی پہنائی جائیں تو گلاب کے گجرے ہی دکھائی جائیں گے۔ معیشت کا کباڑہ بھی ہو جائے تو یہی معلوم ہو گا کہ گھبرانا نہیں ہے۔ یہ باد مخالف تو اقبال کے شاہینوں کو اونچا اڑانے کے لئے چلتی ہے۔ ہر قسم کے سیاسی انتقام کو منصفانہ احتساب کا ہی نام دیا جائے گا۔

اور کیا چاہیے جرنیل صاحب؟ پھر میں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان سنبھالنے کی تیاری پکڑوں؟
دیکھئے انکار مت کیجئے گا۔ اللہ نے آپ کو بہت دینا ہے۔ بھاگ لگے رہن!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).