بیوٹی پارلر ، کتھک ناچ ، پبلسٹی اور ہیش ٹیگ می ٹو


مشاطہ اور رقاصہ ہر دربار کی ضرورت ہوا کرتی تھیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھانڈ میراثی ، بونے، نائی اور خواجہ سرا۔ سب کی اپنی ذمہ داری اور اپنے خاص نوعیت کے کام ہوتے ہیں ۔ اسی طرح قدیم زمانے کے میلے میں ایک دیہاتی سرکس بھی ہوا کرتا تھا۔ اس سرکس کی خاص بات اس میں موجود مختلف نوع کے معذور ہوا کرتے تھے۔ شائد آپ کو بھی ڈرامہ خواہش یاد ہو۔ اس میں” روڑیا” نامی کردار ایک خاص انداز میں تان لگایا کرتا تھا ” ایک رپا، ایک رپا، دو دھڑ والا بچہ دیکھو، ایک رپا، ایک رپا، کوڈو کا ڈانس دیکھو، ایک رپا، ایک رپا، عاشی کا ڈانس دیکھو، ایک رپا، ایک رپا” ۔ ترقی کی تیز رفتار اور انٹرنیٹ پر موجود بے حساب تفریحی سامان نے ان سب کے روزگار پہ برا اثر ڈالا اور ان سب کو تقریباً بے روزگار ہی کر دیا ۔

چند سال پہلے ماضی کی ناکام اداکارہ اور مشہور مشاطہ نے سرکس کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ یوں تو اب پارلر ہر طبقے کی عورت جاتی ہے لیکن جس وقت محترمہ نے آغاز کیا اس وقت کی صورت حال آج سے قدرے مختلف تھی۔

سرکس کی قدیم روایت کو دوبارہ زندہ کرنے والی محترمہ نے ایسے چہرے تلاش کئے جو کسی حادثے خصوصی طور پر تیزاب سے تباہ ہو چکے تھے ۔ اس قدر مختلف نوع کے پارلر نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ جب نئے بیوٹی پارلر کا افتتاح ہوا ساتھ ہی تمام آنے والوں کو اپنے نام سے جاری کی جانے والی بیوٹی پروڈکٹ کے اشتہارات بانٹ دیے گئے۔ جن میں سب سے زیادہ اینٹی ایجنگ کریم کے بروشر تھے۔ گویا ایک بٹن دو کاج ۔ نیکی کی نیکی اشتہار کا اشتہار۔

مشاطہ کے بعد مارکیٹ میں ایک اور ماضی کی ناکام اداکارہ اور حال کی معروف کتھک ڈانسر خواتین کے حقوق کا نعرہ لگاتی منظر عام پر آئی۔

ہمارے بچپن میں اداکار تھیں۔ پھر حالات کی مناسبت اور فیشن کے رنگ میں انہوں نے بھی ” خواتین کی آزادی” کا نعرہ لگایا اور اپنا چھوٹا موٹا دربار سجانے لگیں۔ چونکہ اب نہ دربار رہے نا ہی شاہی رقاصاؤں کے لیے کوئ ماحول ۔ تو محترمہ نے بھی اپنے ارد گرد حادثے زدہ چہرے سجانا شروع کیے۔ مشاطہ کی طرح ان کو بھی اپنی دال روٹی کی ہی فکر ہے لیکن اب تحریک کو اپنے نام کو چلانے کے لیے اور کمانے کے لیے کردار درکار رہتے ہیں۔ اسی مقصد سے حال ہی میں ایک کانفرنس کاانعقاد کیا۔

اس تقریب میں نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے لیے خصوصی طور پہ ایک نامور ہم جنس پرست کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ موصوف کی موجودگی ایک استعارہ تھی جیسا کہ آپ سب بھی جانتے ہیں کہ موصوف ہم جنس پرست ہیں تو “می ٹو ” کے اسی مناسبت سے پرزور حامی بھی۔ ان کی معصومیت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہیش ٹیگ می ٹو کرنے والے اولین حضرات میں سے ہوں گے۔ اس تقریب کا مقصد می ٹو زدہ اداکاروں کی سیکس سٹوری کی تشہیر تھا، جس کے ذریعے ماضی اور حال کے مشہور لوگوں کو می ٹو سے ڈسنا تھا۔ اس کانفرنس میں کیچڑ اچھالنے کی انتہا اس حد تک ہوئی کہ مہمانوں میں موجود ایک خاتون نے صدائے احتجاج بلند کی۔ آخر میں ایک چھوٹا سا قصہ بیان کرتی چلوں۔

پرانے زمانے کا ذکر ہے!

ایک بادشاہ تھا جسے امور سلطنت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کا تمام وقت اپنی تزئین و آرائش میں گزرتا تھا۔ یہ بات پھیلنا شروع ہوئی تو کہیں سے دو ٹھگوں کی جوڑی بادشاہ کے پاس پہنچی اور کپڑوں کی ایسی تھان کھول کر دکھائی جو نظر ہی نہیں آتی تھیں۔ ان دونوں نے بادشاہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ دنیا کی سب سے نازک پوشاک صرف ان کے پاس ہی ہے۔ بادشاہ نے ٹھگوں کو منہ مانگا نذرانہ دیا اور اس فرضی پوشاک کو زیبِ تن کیا۔ لیکن حقیقت میں بادشاہ سلامت مکمل برہنہ تھے لیکن کسی درباری کی اتنی ہمت نہ تھی کہ کچھ کہہ پاتے۔ لہذا بادشاہ سلامت برہنہ ہی محل سے باہر نکلنے، ننگے بادشاہ کو دیکھنے کے لیے سارا قصبہ باہر آ گیا۔ لوگوں کے رش کو دیکھ کر ایک بچہ بھی بادشاہ کے قافلے کے پیچھے دوڑا لیکن وہ بادشاہ کو دیکھ نہ پایا۔ بڑی مشکل سے وہ درخت کی شاخ پہ چڑھا تو ننگے بادشاہ کو دیکھ کر اس نے زور سے آواز لگائی “او ننگے” یہ آواز سنتے ہی بادشاہ ایک دم مڑا کہ یہ آواز کس نے لگائی۔ بچہ ڈر جاتا ہے کہ اب تو جان سے گئے لیکن بادشاہ اسے کہتا ہے اس پورے علاقے میں صرف تم ہو جو سچ کہنے کی ہمت رکھتا ہے۔ جب بادشاہ دربار واپس لوٹا تو دونوں ٹھگ بھاگ چکے تھے۔

اس می ٹو سے کیا زینب اور زینب کے بعد آنے والی معصوم بچیوں کو کوئ فایدہ ہوا؟

یا محض مشاطہ اور کتھک ڈانسر جیسی کلیکٹر کی دکان میں گاہک بڑھانے کی پبلسٹی کمپین چلی؟

ان کے نزدیک کسی حقیقی کردار کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ یہ وہی ٹھگ ہیں جو ایسی تھان بیچ رہے ہیں جو کسی کو نظر بھی نہیں آ رہی۔ صرف زمانے کا فرق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).