ڈھلکے ہوئے جسم کی عورتیں


بات شروع کرنے سے پہلے میں خود پر اک مشہور کالم نگار صاحب کا “لمحہ جاوید” طاری کرنا چاہتا ہوں: میں پاکستان میں موجود اک عمدہ معیار کی جاپانی گاڑی چلاتا ہوں، برینڈڈ چشمہ پہنتا ہوں، کپڑے بھی اک اچھے ڈیزائنر کے ہوتے ہیں، ہاتھ میں پلاڈئیم کی اک انگوٹھی بھی ہے اور بٹوے میں چند روپوں کے علاوہ بینکوں کے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز بھی۔

مگر یہ میرا ظاہر ہے جو موجودہ لمحہ میں ہے۔ اور یہ ظاہر ہی آپ سب کو دِکھتا ہے، اور اسی دیکھنے کی بنیاد پر آپ میرے بارے میں رائے قائم کرسکتے ہوں گے۔ مگر میرا یہ ظاہر، زخم زخم اس سچ کا دس فیصد بھی نہیں، جو میری زندگی کی کہانی کا رستہ رہا ہے، اور شاید کسی حد تک ابھی بھی ہے، اور نجانے کب تک رہے گا۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں۔

کچھ یہی معاملہ ہم اپنے معاشرے میں عورت کے ساتھ بھی کرتے چلے جاتے ہیں، بالخصوص وہ عورت جو اپنے پاؤں پر مسلسل لڑکھڑاتے ہوئے، مگر کھڑے ہونے کی مسلسل کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ دوسروں معاشروں کا کیا حال ہے، میں نہیں جانتا، اور شاید اسکا کوئی حوالہ بھی میری دلچسپی کا سبب نہ ہوگا کہ پیدائش، رہائش اور شاید موت بھی پاکستانی معاشرے میں ہی ہوگی۔ ہم عورت کا لمحاتی ظاہر دیکھتے ہیں اور اسی ظاہر پر اپنی ذہن سازی کرتے ہوئے، اک رائے قائم کرلیتے ہیں اوراپنی سوچ کی اس کائنات میں عمومی حوالہ جات اس کے جسم، دماغ اور اس ظاہریت پر ہوتے ہیں جو کبھی ہمارے پیمانہ حسن پر پورا اترے تو، ہم اس کے عاشق، اور اگر پورا نہ اترے تو ہم اس کے ناقد۔ ہمارے حصول میں ہو تو ہم راجہ اِندر، حصول میں نہ ہوتو حاسد۔ اور معاشرے میں جنسی و صنفی حوالہ جات کے حوالے سے یہ سلسلہ اک “دائروی دہراؤ” پر لگا ہوا ہے، اور پاکستانی مردوں کی اکثریت اس دہراؤ کے بھنور میں پھنسی چکر کھائے چلی جاتی ہے۔ سوچتے بھی نہیں، کہ عمومی سوچ کا شاید ظرف بھی نہیں۔

دو ماہ پہلے دوستوں کی اک محفل میں بیٹھے، پاکستان کی قومی ائیرلائن میں کام کرنے والی ائیرہوسٹسز کی ظاہریت پر بات چل نکلی۔ تمام نے مذاق بنایا۔ بڈھی مائیاں، پُھپھیاں، تائیاں وغیرہ کے القاب دیے گئے۔

خدا شاہد کہ اس گفتگو میں حصہ نہ لیا، تو اک دوست کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ نظر آنے والی عورت سے زیادہ کبھی اس کی کہانی کے بارے میں تو سوچیے گا؟ سوچیے گا کہ وہ پیشہ جس میں آپ اپنی بہن، بیٹی، بیوی کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے، اس میں اک عورت کئی سال مسلسل آپ اور مجھ جیسوں کی خدمت کرتے گزار دیتی ہے۔ وہ ائیر ہوسٹس ہے، آپکی نظروں اور ذہن کی تفریح کے لیے سامان نہیں۔ وہ آپ کی خدمت گزار بھی ہے، آپ کی ڈاکٹر بھی، آپ کے بچوں کی آیا بھی، آپ کے بزرگوں کا خیال رکھنے والی بھی، اور دوران سفر آپ کی بیوی کی زچگی دیکھنے والی بھی۔ وہ اس معاشرے میں موجود اپنے خاندانی اور سماجی نظام سے ایسے ہی جڑی ہوئی ہے جیسے آپ کی بہن، بیٹی اور بیوی، اور اسے بھی آپ کی طرح اچھی طرح معلوم ہے کہ معاشرے میں ائیر ہوسٹسز کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جناب، وہ مجبور نہیں، دلیر عورت ہے کہ معاشرے کی شدت کی مخالفت کے باوجود وہ اس پیشے میں ایک نہیں، کئی سال گزارتی ہے، آپ کی آنکھیں اور اشارے پڑھتے، جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی وہ بغیر شکایت کئے آپ کی خدمت کئے چلی جاتی ہے۔ کیا آپ ایسا کریں گے، کر سکتے بھی ہیں؟ اور انہی عورتوں کی عمر کے جہازوں میں کام کرنے والے سٹوورڈز اور ان کی ظاہریت کے بارے میں آپکی رائے کیا وہی ہوگی جو ان عورتوں کے بارے میں ہے کہ وہ کیسے دِکھتے ہیں، کیسے چلتے ہیں اور وہ آپ کی نظروں و دماغ کی بیمار تفریح کا کتنا ایک سامان مہیا کرتے ہیں؟

نہیں۔ آپ اور میں، چالیس سال کی اک ائیرہوسٹس اور سٹوورڈ کو ایک ہی نظر نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے جنس اور صنف کے بارے میں تعصبات ہی ایسے ہیں کہ ہم میں سے اکثریت اس فرق کو روا رکھنے کے قابل ہی نہیں۔

گرو رجنیش، 1980 کی دہائی میں وفات پا گئے تھے۔ انہوں نے وجود کی ظاہریت اور اسکی بنیاد پر سماج میں جنس اور صنف کے مقام پر بہت کچھ کہا۔ ان کی وفات کے بعد، ان کے اقوال کی کئی کتب مارکیٹس میں آئیں، مگر آہستہ آہستہ ختم ہوگئیں۔ اب تقریبا نایاب ہیں۔ اپنی کسی بات میں وہ کہتے ہیں کہ عورت کو دنیا کے تمام معاشروں اور سماج نے اس کی ظاہریت کا غلام بنا ڈالا ہے، اور عجب مذاق یہ ہے کہ ظاہریت کا یہ پیمانہ بھی اس نے نہیں، بلکہ مرد نے طے کیا ہے۔ لہذا، عورت کو تمام عمر بن ٹھن کر رہنا اور خوبصورت نظر آنا لازمی ہے، جبکہ مرد کے بارے میں معاشرے کے صنفی رویے بالکل الگ ملیں گے۔ اک عورت اگر ملگجے اور سلوٹوں والے لباس میں ہوتو وہ پھوہڑ ہے، جبکہ سلوٹوں والے لباس میں اک مرد لاپرواہ کہلایا جاتا ہے۔ گرو رجنیش نے یہ بھی کہا کہ چرچل، جو اپنی تیزابی باتوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے، انہی کی جگہ، انہی کی عمر اور انہی کی وضع قطع کے ساتھ اک عورت، اگر ان سے دس گُنا بھی زیادہ ذہین ہوتی تو جو چرچل کہہ کر سامعین کو ہنسا جاتا تھا، وہی سامعین شاید اس عورت کو ایسی باتوں پر معاف ہی نہ کرتے۔

کسی عورت کا ڈھلکا ہوا جسم صاحبو اس کا گناہ نہیں، اور نہ ہی آپ کے اور میرے طنز کا سامان ہے۔ یہ تو اس کی زندگی کی کہانی ہے جو صرف وہ جانتی ہے، آپ اور میں نہیں جانتے، جان سکتے بھی نہیں۔ زندگی کی جنگ میں اس نے نجانے کہاں کہاں، کیسے کیسے زخم کھائے ہوں گے، کیسی کیسی گھاٹیوں اور چوٹیوں سے گزری ہوگی کہ شاید آپ کے گمان میں بھی نہ ہو۔ اس کے چہرے پر میک اپ کی تہہ میں چھپی جھریاں اس کی زندگی کی جدوجہد کا بیان ہیں، اس کی بدصورتی کا نہیں۔ آپ اور میں، بحیثیت مرد، پدرسری کے معاشرے میں کچھ آزادیاں لیے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور سب سے بڑی آزادی یہ کہ ہمیں دوسری جنس کو خوبصورت نظر آنے کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا، جبکہ جنس اور صنف کا پانسہ جیسے ہی پلٹتا ہے، ہمیں ڈھلکے ہوئے جسم اور جھریوں والے چہرے فورا ہمارے طنز و مذاق کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ڈھلکے ہوئے جسم کی عورتیں، دلیر اور خوبصورت انسان ہیں جو اپنے محاذ پر اپنے مقابل مردوں سے کہیں زیادہ دلیری سے ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہیں۔

خدا کرے کہ کھڑی رہیں، اور ان کی تعداد میں ان کی قابلیت کے مطابق اضافہ بھی ہوتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments