خواتین نے سیگریٹ پینا کب اور کیسے شروع کیے؟


ایڈروڈ برنیز (Edward Bernays) دنیا کے وہ پہلے شخص تھے، جنہوں پروپیگنڈا کی بجائے پبلک ریلشنز یا پی آر کی اصطلاع متعارف کروائی تھی۔ یہ وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے خواتین کو سیگریٹ پلانے کا تجربہ کیا تھا۔ یہ وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے عوام یا یجوم کو کنٹرول کرنے کے طریقوں کی بنیاد رکھی تھی۔ بیسویں صدی پر ایڈروڈ برنیز کا اثر سگمنڈ فرائیڈ سےکم نہیں ہے لیکن بہت ہی کم لوگ ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ آج کے اشتہارات، بل بورڈز، ایڈورٹائزنگ کمپنیاں سبھی ایڈروڈ برنیز کے دماغ سے نکلی ہیں۔

عوام یا ہجوم کو کنٹرول کرنے کے طریقے ایجاد کرنے والے اس ماسٹر مائنڈ کا ایک قول ہے، ’’عوام کی منظم عادات کو تبدیل کرنا، ان کی رائے سازی اور دماغ سازی کرنا جمہوری معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے۔ جو معاشرے کے اس ان دیکھے میکنیزم کو کنٹرول کرتے ہیں، اصل میں وہ ہی غائبانہ طور پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ غائبانہ حکومت برسر اقتدار حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔

معاشرے کو منظم جمہوری انداز میں چلانے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم پر حکومت کی جاتی ہے، ہمارے ذہنوں کے سانچے بنائے جاتے ہیں، ہمارے ذوق تشکیل دیے جاتے ہیں اور ہمارے خیالات تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ افراد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سنا ہی نہیں ہوتا۔‘‘

Edward Bernays

ایک صدی پہلے سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی فطرت سے متعلق ایک نیا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کے لاشعور میں ایسی جنسی اور جارحانہ قوتیں چھپی ہوئی ہیں، جنہیں اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ معاشرے میں افراتفری اور تباہی پھیلا دیتی ہیں۔ اس تھیوری کا سب سے زیادہ فائدہ ان کے امریکی بھتیجے ایڈروڈ برنیز نے اٹھایا۔ برنیز وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے فرائیڈ کی تھیوری کو عوام کو قابو یا عوام کی دماغ سازی کے لیے استعمال کیا۔

برنیز نے پہلی مرتبہ امریکی کاروباری اداروں کو یہ راستہ دکھایا کہ کس طرح مصنوعات کو لوگوں کی لاشعوری خواہشات سے جوڑا جا سکتا ہے اور انہیں وہ اشیاء یا مصنوعات خریدنے پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے، جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔

ایڈورڈ برنیز امریکا میں پریس ایجنٹ تھا۔ اس کی عمر ابھی چھبیس برس تھی کہ اسے امریکی صدر ووڈرو ولسن کے ساتھ پیرس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیج دیا گیا کیوں کہ بیرنیز نے وہ مہم انتہائی کامیابی سے چلائی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ امریکا یورپ کو ایک نیا جمہوری نظام دے سکتا ہے اور صدر ووڈرو ولسن ان کے نجات دہندہ ہو سکتے ہیں۔

1991ء میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بیرنیز کہتے ہیں کہ اس سفر سے واپسی پر ’’میں نے سوچا کہ اگر پراپیگنڈہ کو جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو اسے دوسرے مقاصد یا امن کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پراپیگندا کا لفظ جرمن استعمال کر رہے تھے اور یہ منفی بھی تھا لہذا ہم نے ’کونسل آف پبلک ریلیشنز (پی آر)‘ کا لفظ تلاش کیا۔‘‘

اس کے بعد بیرنیز نے نیویارک میں ’عوامی تعلقات کونسل‘ کے نام سے ایک دفتر کھولا اور اس اصطلاح کا پہلی مرتبہ عوامی استعمال کیا گیا۔

اس دوران سگمنڈ فرائیڈ انسانی فطرت سے متعلق اپنی نئی تھیوری پر مبنی کتاب بیرنیز کو بھیج چکے تھے اور بیرنیز کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہتے تھے، جس سے ثابت ہو کہ انسان کی لاشعوری خواہشات سے کھیلا جا سکتا ہے، انہیں اپنی مرضی سے ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

ایڈروڈ برنیز کا سب سے متنازع اور ڈرامائی تجربہ خواتین کو سیگریٹ نوشی کے لیے قائل کرنا تھا۔ اس وقت امریکا میں خواتین کے لیے سیگریٹ نوشی شجر ممنوعہ تھی۔ ایڈروڈ برنیز کا دوست جارج ہل امریکن ٹوبیکو کارپوریشن کا صدر تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ برنیز سے کہا کہ اس ٹابو کو توڑنے کا کوئی طریقہ تلاش کرو۔

ایڈورڈ برنیز اپنے 1991ء کے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’وہ اپنی مارکیٹ کے پچاس فیصد حصے سے محروم ہو رہا تھا کیوں کہ عوامی جگہوں پر خواتین کا سیگریٹ پینا شجر ممنوعہ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے میں نفسیاتی تجزیہ کرواؤں گا کہ عورت کے لیے سیگریٹ کی اہمیت کیا ہے پھر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ اس پر کتنی رقم خرچ ہو گی۔ میں نے اس وقت نیویارک کے سب سے اعلیٰ نفسیات دان ڈاکٹر بریلے کو فون کیا۔ ڈاکٹر بریلے امریکا کے اولین نفسیات دانوں (ماہرین تحلیل نفسی) میں سے ایک تھے۔ اس نے بہت زیادہ فیس لی اور خواتین کے انٹریوز لیے اور یہ بتایا کہ خواتین اسے عضو تناسل اور مردانہ جنسی طاقت کی نشانی سمجھتی ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر تم سیگریٹوں کو کسی ایسے طریقے سے پیش کروں کہ جس سے مردوں کی طاقت چیلنج ہو تو خواتین سیگریٹ پینا شروع کر دیں گی۔‘‘

نیویارک میں ہر سال ایسٹر ڈے پریڈ ہوتی تھی اور اس میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔ بیرنیز نے وہاں ایک ایونٹ اسٹیج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خوبصورت نوجوان خواتین کے ایک گروپ کو سیگریٹ دیے گئے کہا گیا کہ وہ انہیں اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا لیں اور پریڈ میں شرکت کریں۔ اور جب انہیں اشارہ کیا جائے تو وہ سیگریٹ سلگا کر پینا شروع کر دیں۔

دوسری جانب بیرنیز نے پریس والوں کو آگاہ کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم خواتین کا ایک گروپ احتجاج کرنے والا ہے اور یہ احتجاج وہ ’آزادی کی شمعیں‘‘ جلا کر کریں گی۔

پبلک ریلیشنز کے شعبے میں بیرنیز کے مشیر اور ساتھی پیٹ جیکسن اس تجربے کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’بیرنیز جانتا تھا کہ اس حرکت کے خلاف شور اٹھے گا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صحافی ’’آزادی کی شمعوں‘‘ کی تصاویر لینے ضرور آئیں گے۔ وہ آزادی کی شمعیں جیسا محاورہ تشکیل دینے کے لیے تیار تھا۔ ایک طرف ایک علامت تھی، نوجوان خواتین تھیں، ماڈرن تھیں، سر عام سیگریٹ پی رہی تھیں، جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ جو کوئی بھی مرد و خواتین کی برابری پر یقین رکھتا ہے، اسے اس عمل کی حمایت کرنی ہو گی، اس سے متعلق ہونے والی بحث اور آزادی کی شمع کی حمایت کرنی ہو گی۔ ہم امریکیوں کا نعرہ کیا ہے ۔۔ آزادی ہے۔ مجسمہ آزادی کے ہاتھ میں بھی تو ایک شمع ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس نقطے پر سب کچھ جمع کر دیا گیا تھا۔ جذبات، ماضی کی یادیں اور آزادی جیسا محاورہ، ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا تھا۔ تو اگلے دن یہ موضوع اور تصاویر صرف نیویارک ہی نہیں بلکہ امریکا اور دنیا کے اخبارات میں تھیں۔ اس کے بعد سے سیگریٹوں کی فروخت میں اضافہ ہوتا گیا۔ برنیز نے صرف ایک علامتی طریقے سے اس کو سماجی سطح پر قابل قبول عمل بنا دیا تھا۔‘‘

بیرنیز نے اس طرح ایک نیا آئیڈیا تشکیل دیا تھا کہ سیگریٹ پینے سے خواتین مزید طاقتور اور آزاد ہو جائیں گی۔ ایک آئیڈیا جو آج تک موجود ہے۔ اس تجربے کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ لوگوں کو غیر عقلی رویہ اپنانے پر قائل یا مجبور کیا جا سکتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات کو مصنوعات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کیا سیگریٹ پینے سے خواتین مزید آزاد ہو جاتی ہیں؟ یہ خیال مکمل طور پر غیر عقلی ہے لیکن یہ ثابت کیا گیا کہ انسان کی احساسات یا جذبات سازی کی جا سکتی ہے اور وہ غیر عقلی اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

1948ء سے 1952ء تک بیرنیز کی کمپنی میں کام کرنے والے بیٹر سٹراؤس کہتے ہیں، ’’بیرنیز نے ایک ایسا نیا طریقہ تلاش کیا تھا، جس کے تحت عقل کو تو نہیں لیکن جذبات کو اشیاء بیچی جا سکتی تھیں۔‘‘

اس تجربے سے امریکی کاروباری حلقے بہت متاثر ہوئے اور برنیز سے یہ کہا گیا کہ وہ ایسے طریقے تلاش کرے، جن کے تحت لوگوں کو ایسی اشیا بیچی جا سکیں، جو بڑے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔

وال اسٹریٹ کے ایک بہت بڑے بینکر اور لہیمن برادرز سے منسلک پاؤل میسر بہت واضح تھے کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں، ’’ہمیں امریکا کو ضرورتیں پوری کرنے کی طرف سے خواہشیں پوری کرنے کے کلچر کی طرف لانا ہو گا۔ لوگوں کو یہ تربیت دینا پڑے گی کہ وہ خواہش کرنا سیکھیں اور پرانی اشیا مکمل استعمال کیے بغیر نئی اشیا خریدیں۔ ہمیں امریکا میں ایک نئی ذہنیت تشکیل دینا ہو گی۔ انسان کی خواہشات کو اس کی ضروریات پر حاوی کرنا ہوگا۔‘‘

اور اس امریکی ذہنیت کو تبدیل کرنے والا مرکزی شخص ایڈروڈ برنیز تھا۔

لہمن برادرز کے اس انویسٹمینٹ بینکر کے مطابق اس وقت امریکی صارفین کی تعداد انتہائی کم تھی۔ صرف امریکی ورکرز تھے۔ اس وقت امریکی سرمایہ کاروں کو یہ فکر تھی کہ امریکا عالمی جنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں تیار کی جانے والی مصنوعات کون خریدے گا؟ ان سرمایہ کاروں کو اب مقامی صارفین کی ضرورت تھی۔ برنیز کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے، نئے گھر، نئی کاریں، نئے کپڑے نئی مصنوعات بیچنے کا آغاز ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments