عوام کی برین واشنگ اور ہیپی تحریک کا آغاز


\"imtiaz

پچھلے مضامین میں ہم دیکھ ہیں کہ حکومتیں عوام کو کیسے کنٹرول کرتی ہیں۔ عوامی کنٹرول اور پروپیگنڈے کے ذریعے ان کو کسی راہ پر لگانے کی ان کوششوں کے بعد امریکا میں فرائیڈ فیملی کی مخالف ایک سیلف فری کی تھیوری آئی کہ اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی بجائے ان کا سر عام اظہار کیجیے۔ یہ تھیوری Wilhelm Reic نے پیش کی تھی، جو فرائیڈ تھیوری کا سخت مخالف تھا۔
ساٹھ کی دہائی کے وسط میں امریکی حکومت اور کارپوریٹ امریکا کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا۔ امریکی کاروباری اداروں پر امریکی عوام کی برین واشنگ کا الزام عائد کیا گیا۔ ان احتجاجی مظاہروں کی تقریروں کے مطابق عوام کو کنٹرول کرتے ہوئے سرمایہ دار نہ صرف پیسہ بنا رہے ہیں بلکہ عوام کی توجہ ویتنام کی غیرقانونی جنگ سے بھی ہٹائی جا رہی ہے۔
ویلہیلم رائش کی وفات کے بعد سے مختلف گروپ ایسے طریقے دریافت کر رہے تھے جن کا مقصد افراد کو معاشرے کے اس دباؤ سے آزاد کرنا تھا، جو اس کے ذہن میں ڈالا گیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں اپنی ذات کو تلاش کرنے اور خود کو کرپٹ سرمایہ داری نظام سے آزاد کرنے کی تحریک زور پکڑتی گئی اور اسی تھیوری کی وجہ سے امریکا میں بعد ازاں ہیپی تحریک کا آغاز ہوا۔
یہ امریکی سرمایہ داروں کے لیے لمحہ فکریہ تھا کیوں کہ اب عوام ’مناسب صارفین‘ کی طرح رد عمل ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ اس وقت سرمایہ کاروں کو یہ لگ رہا تھا کہ اب ان کا کاروبار بند ہو جائے گا۔
امریکا کے Yankelovich Partners Market Research Inc ادارے کے Daniel Yankelovich کہتے ہیں، ’’ستر کی دہائی میں 80 فیصد امریکی سرمایہ داری نظام کے خلاف ہو چکے تھے۔ اور ہر کوئی کاروباری یہ سوچ رہا تھا کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔‘‘
یہ وہ نقطہ تھا ، جب امریکی سرمایہ داروں نے اس افراد کی ذاتیات اور الگ تھلگ شناخت میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کیلفیورنیا کا سٹینفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سری) حکومت اور کاروباری اداروں کے لیے کام کرتا تھا۔ 1978ء میں نفسیات دانوں اور ماہرین معاشیات نے پیدا ہونے والے ’’ناقابل اعتبار صارفین‘‘ کی ضروریات پڑھنے اور ان کی خواہشات کا ناپنے کا پلان بنایا تاکہ اس خواہشات کو پورا کیا جا سکے۔
سری نے اپنی ویلیوز اینڈ لائف اسٹائل نامی تحقیق میں ان نئے صارفین کی انفرادیت کو تین مرکزی گروپوں میں تقسیم کیا اور یہاں سے نائیکی ، اور ایدیداس اور گوچی جیسے برانڈز کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یہ بات سامنے آئی کہ ہر کوئی علیحدہ طریقے سے (انفرادیت سے) اپنی ذات کا اظہار چاہتا ہے اور ایسے گروپوں کے لیے علیحدہ قسم کی اشیاء کی پیداوار کی جائے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ جو لوگ خود اپنی شناخت نہیں بنا سکتے انہیں ایک ایسی شناخت دی جائے جو وہ خرید سکیں۔
اس تحقیق سے پتا چلایا گیا کہ جو لوگ خودی یا اپنی ذاتیات کے بارے میں سوچتے ہیں انہیں کیسے کنٹرول کیا جائے۔
بعد ازاں عوام کی ’انفرادیت اور خواہشات‘ کو کنٹرول کرنے کے اس پروگرام کو سیاست میں بھی استعمال کیا گیا۔ رونلڈ ریگن اور ان کے مشیر کا کہنا تھا کہ وہ انفرادیت کو استعمال کرتے ہوئے انتخابات جیت سکتے ہیں۔
سن 1976ء سے 81 تک رونلڈ ریگن کے لیے تقریریں لکھنے والے جیفری بیل کہتے ہیں، ’’میں نے ریگن کو تقریر کی متعدد ہیڈ لائنز لکھ کر دیں اور جو انہوں نے پسند کی وہ یہ تھی۔ حکومتوں پر لوگوں کی حکمرانی ہونی چاہیے، لوگوں کو دوبارہ طاقت ملنی چاہیے۔ اپنے قسمتوں کا فیصلہ لوگوں کو خود کرنا چاہیے نہ کہ یہ فیصلے وہ اشرافیہ کرے، جو واشنگٹن میں بیٹھی ہے۔‘‘
ماڈرن ری پبلکنز اور جمی کارٹر نے اس تقریر کو ایک بیوقوفی قرار دیا لیکن انتخابات کے نتائج نے بتایا کہ لوگوں کی خواہشات کو جان کر اسی طرح کے بیانات دینا کس قدر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
سری اس وقت امریکا اور برطانیہ دونوں ملکوں میں تحقیق جاری رکھے ہوئے تھی۔ وہ جانتے تھے ریگن اور برطانیہ میں آئرن لیڈی تھیچر کی ’’لوگوں کی انفرادیت کو اپیل‘‘ کرنے کی یہ پالیسی کامیاب رہے گی۔
ہیپی پارٹی کے بانی رکن سٹیو البرٹ کہتے ہیں، ’’ یہ کیپٹلزم کی جیت تھی۔ انہوں نے ایسے طریقے دریافت کر لیے تھے، جن کے تحت لوگوں کی انفرادیت سے کھیلا جا سکتا تھا۔ اور اب لامتناہی انفرادیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یہ ایک نیا وے آف لائف تھا۔‘‘
اس تحقیق کے بعد، جس نے جس طرح کا فرنیچر چاہا، مارکیٹ میں وہی فرنیچر لاکر رکھ دیا گیا۔ اب مختلف سروے کروائے جاتے تھے اور مارکیٹ میں وہی اشیاء لائی جاتی تھیں، جس کی طلب تھی۔
ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والا ’’خود کی آزادی‘‘ کا نظریہ بوری طرح ناکام ہو چکا تھا اور اس نظریے کے بطن سے پیدا ہونے والی لامتناہی خودی نئے قسم کے صارفین پیدا کر چکی تھی۔
کارپوریٹ کی مخالفت کرنے والے خود بری طرح اپنی خواہشات کے غلام بن چکے تھے اور سرمایہ داروں کو لالچی کہنے والے خود اپنی خواہشات پوری کرنے کے لامتناہی لالچ میں پھنس چکے تھے۔


اس سیریز کے گزشتہ مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments