میلان کنڈیرا، کیکٹس کی فوٹوگرافی اور بونسائی آرٹ


نومبر 1989 کے تاریخ ساز موسم سرما تک یورپ میں چیکوسلاوکیہ کے نام سے ایک ملک پایا جاتا تھا۔ 1918 میں قائم ہونے والی ریاست چیکوسلاوکیہ 1948 سے 1989 تک سوویت یونین کے زیردست وارسا بلاک کا حصہ رہی۔ 1989 کے جمہوری انقلاب کے بعد یہاں کے رہنے والوں نے پرامن طریقے سے یکم جنوری 1993 کو چیک ریپبلک اور سلاوک ریپبلک کے نام سے دو علیحدہ ریاستیں قائم کر لیں۔ 40 برس پر محیط اشتراکی تجربے میں اس ملک نے 1968 کا ہنگامہ خیز برس بھی دیکھا۔ چیک تاریخ میں اسے پراگ کی بہار کا نام دیا گیا۔ آج اسی بہار سے نکلنے والی میلان کنڈیرا کی ایک جدید کلاسیک کہانی کا کچھ ذکر رہے۔ میلان کنڈیرا اور پراگ کی بہار کا کچھ بیان بھی ہو گا مگر پہلے 1984 میں چھپنے والے میلان کنڈیرا کے ناول ’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘ کی ایک مرکزی کردار تریزا اور اس کی فوٹوگرافی کا احوال جانتے ہیں۔

تریزا ایک معصوم، جذباتی اور محبت کی متلاشی نوجوان لڑکی ہے۔ گاؤں کے کلال خانے میں ملازمت کرتی ہے، کتابیں پڑھتی ہے اور اپنی سخت گیر ماں کی دنیا سے دور جانے کے خواب دیکھتی ہے۔ گاو ¿ں میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماو ¿ں کے لئے ایک خصوصی شفا خانہ ہے۔ یہاں کچھ علاج معالجہ بھی ہوتا ہے لیکن دراصل یہ قومی خدمت کے بعد جسم اور نظر کا قرض اتارنے کا ٹھکانہ ہے۔ توماس نام کا ایک ڈاکٹر شہر سے یہاں بھیجا جاتا ہے۔ ڈاکٹر توماس اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ اہلیت کے طفیل بھنورا صفت کردار ہے۔ بے خبر تریزا اس کی محبت میں شہر آ کر اس سے شادی کر لیتی ہے۔ اس تعلق میں تناؤ کے جملہ عناصر موجود ہیں۔ توماس اپنی بیوی تریزا کی مکمل سپردگی میں کشش کے باوجود اپنے شب و روز بدلنے سے قاصر ہے۔ تریزا اپنی داخلی ٹوٹ پھوٹ سے فرار کے لئے فوٹوگرافی سیکھنا شروع کرتی ہے۔ اس دوران اگست 1968 ہو جاتا ہے۔ پراگ کی گلیوں میں سوویت ٹینک دراتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ مرنے والوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ تریزا اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ مناظر کیمرے میں قید کرتی ہے۔ بالآخر توماس اور تریزا ہزاروں دوسرے افراد کی طرح جلاوطن ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں تریزا کا واحد سرمایہ وہ نایاب تصویریں ہیں جو چیکوسلاواکیہ جیسے چھوٹے ملک پر سوویت روس کی قہرباری کی گواہی دیتی ہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک اخبار کے دفتر پر دستک دیتی ہے۔ یہاں صحافت کا پیشہ ورانہ المیہ ظاہر ہوتا ہے۔

گلی کوچوں میں بسنے والی مخلوق کے شب و روز کو اپنی جلتی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر قلم یا کیمرے میں قید کرنے والا صحافی اخبار کے دفتر میں پہنچتا ہے تو اسے ایڈیٹر کے کمرے سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ احساس کے آتش فشاں سے برفانی گلیشئر کی تنہائی کا سفر ہے۔ یہاں فیصلے معروضی حقیقتوں کی روشنی میں کئے جاتے ہیں۔ اخبار کی اشاعت کے سو جھمیلے ہیں، اشتہارات کی ضرورت ہے، پڑھنے والوں کی نزاکت طبع ہے، میڈیا کے دوسرے اداروں سے خوفناک مقابلہ ہے۔ اوپر والوں کا دباؤ ہے۔ اور پھر کچھ بشری تقاضے ہیں۔ اخبار کا ایڈیٹر تریزا کے تصویر خزانے پر ایک نظر ڈالتا ہے، فوٹوگرافی کے معیار کی تعریف کرتا ہے اور پھر کہتا ہے، ’چیکوسلاواکیہ کے واقعات اب پرانے ہوگئے۔ کسی کو ان میں دلچسپی نہیں۔ آپ ہمارے باغبانی کے شعبے کے لئے کیکٹس کے فوٹو فیچر کیوں تیار نہیں کرتیں۔ فیشن فوٹوگرافی میں بہت امکانات ہیں‘۔ وہی جملہ جو امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آنے والے سائل کاشمیری سے چراغ حسن حسرت نے کہا تھا۔ ’آپ امرتسر میں بے شک لکھنے والے تھے مگر امروز میں آپ کے لئے کتابت کی ملازمت حاضر ہے۔‘

دل شکستہ تریزا گھر لوٹ آتی ہے۔ کھڑکی سے کیکٹس کا ایک چھوٹا سا پودا اٹھا کر اسے اپنی آنکھوں کے متوازی لا کر خود کلامی کرتی ہے، ’تو اب میں کیکٹس کی فوٹوگرافی کروں گی؟‘ کیکٹس کی خوبصورتی میں کلام نہیں۔ بلا کے زاویے اس کی ٹیڑھی میڑھی شاخوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ایک فنکار کے طور پر کیکٹس تریزا کا موضوع نہیں۔ اس نے ریاستی جبر، اختیار کی اندھی طاقت، احتجاج کا اخلاقی ارتفاع اور مزاحمت کی ناگزیر شکست دیکھی ہے۔ تریزا تو خود اپنے لفظوں میں ’تشدد کی تصویر کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا چاہتی ہے‘۔ فنکار نے درزی کی دکان نہیں کھولی کہ حسب منشا کپڑے کی کتربیونت پر قادر ہو۔ لمحہ موجود کے تضاد سے آنکھیں بند کرنا اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیکٹس کی تصویروں میں حسن کا امکان موجود ہے لیکن کیکٹس کی جڑیں اتھلی ہوتی ہیں اور کیکٹس چھاؤں نہیں دیتا۔ درویش بے نشاں کا قلم بھی ڈاکٹر توماس کی طرح آوارہ خرام واقع ہوا ہے۔ اب کچھ ذکر پراگ کی بہار ہو جائے۔

1953ءمیں جوزف اسٹالن کی موت کے بعد سے سوویت یونین کے زیر اثر مشرقی یورپ میں چھوٹی موٹی اصلاحات کا آغاز ہو چلا تھا تاہم چیکوسلاواکیہ میں تبدیلیوں کی رفتار بہت سست تھی۔ بالآخر 1967 میں چیکوسلاواکیہ کے ادیبوں نے ایک محتاط مہم شروع کی جو بالآخر جنوری 1968 میں الیگزنڈر دبچک کے کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری منتخب ہونے پر منتج ہوئی۔ (یہاں ایک احسان کے بیان کا موقع ہے۔ درویش بے نشاں نے الیگزنڈر دبچک کا تعارف پہلی مرتبہ استاذی امتیاز عالم سے سنا تھا۔ کیسے اچھے لوگ ہیں کہ بے خبر دیہاتیوں کو روشنی دکھاتے ہیں۔) الیگزنڈر دبچک نے اظہار کی آزادی کو محور بنا کر انسان دوست اشتراکیت کا تصور دیا۔ چیکوسلاواکیہ کے ادیبوں نے گزشتہ عشروں کی ناانصافیوں کو اس موثر انداز میں پیش کرنا شروع کیا کہ اشتراکیت کے مقتدر حلقے بلبلا اٹھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیکوسلاواکیہ کی تاریخ پر تنقیدی نظر دراصل اشتراکی نظام پر بالواسطہ حملہ ہے۔ اسی کشمکش کے نتیجے میں 22 اگست 1968 کو سوویت یونین نے چیکوسلاواکیہ پر حملہ کر دیا۔ سینکڑوں افراد مارے گئے، ہزاروں عقوبت خانوں میں پہنچا دیے گئے۔ الیگزنڈر دبچک کو معزول کر کے محکمہ زراعت کا کلرک بنا دیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے تریزا کو کیکٹس کی فوٹوگرافی کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔

جاپان والے بڑی جسامت پانے والے درختوں کی کچھ اس طرح کانٹ چھانٹ کرتے ہیں کہ بظاہر پورا درخت بن جاتا ہے۔ فرق صرف یہ کہ زمین میں جڑوں سے محروم ہوتا ہے اور قد بہت چھوٹا رہ جاتا ہے۔ اس سے اہل خانہ کو موقع مل جاتا ہے کہ چاہیں تو ڈیڑھ فٹ کا برگد گھر کے صدر دروازے پر سجا دیں اور اگر خواہش ہو تو چند انچ کا 22 سالہ شاہ بلوط ڈرائنگ روم کی میز پر رکھ دیں۔ احساس کی تپش میں سلگتی تریزا کا کیا ہے؟ وہ جلا وطن ہو کر سوئٹزرلینڈ چلی گئی تھی اور اس ناول کا لکھنے والا میلان کنڈیرا 1975 سے پیرس میں مقیم ہے۔ جلا وطن لوگوں کو ایک چھت تو مل جاتی ہے لیکن ان کا دل بے گھر ہو جاتا ہے۔ اپنی زمین اور اس میں اگنے والے پیپل، شیشم اور نیم کے پیڑوں کا نوحہ لکھتے لکھتے خاموش ہو جاتا ہے۔ بس آج یونہی مشرقی یورپ کے ہلکے زرد پنیر اور مئے ارغوانی میں گندھی تریزا یاد آئی تو یہ چند سطریں لکھ دیں۔ کبھی وقت ملے تو میلان کنڈیرا کا ناول پڑھیئے گا یا اس ناول پر 1988 میں بنی فلم The Unbearable Lightness of Being دیکھ لیجئے گا۔ فلپ کوف مین (Philip Kaufman) کی ہدایت کاری ہے اور تریزا کا کردار جولیٹ بنوشے (Juliette Binoche) نے ادا کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).