پنکی میم صاحب: اچھی کہانی مگر کمزور فلم


پاکستانی فلم پنکی میم صاحب نے مجھے بالکل مایوس نہیں کیا، کیونکہ میں اس فلم سے کسی قسم کی توقعات وابستہ کرکے نہیں گیا تھا۔

پنکی میم صاحب کہ کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک بہت غریب سی لڑکی پنکی (ہاجرہ یامین) گھریلو ملازمہ کی نوکری کے لیے دبئی جاتی ہے۔ جہاں وہ مہر (کرن ملک) کے گھر میں کام کرتی ہے جو ایک بچے کی ماں ہے اس کا شوہر حسن (عدنان جعفر) دبئی میں انویسٹمینٹ بینکر ہے ہے اور یہ لوگ دبئی کے ایک بہت ہی امیرعلاقے جمیرا میں رہتے ہیں۔

کرن ملک کا زیادہ وقت بیگمات کے ساتھ گپ شپ میں گزرتا ہے مگر وہ کتاب لکھنے کی جدوجہد کررہی ہے اور اچھا لکھنے میں ناکامی کی وجہ سے بہت الجھن اور دباؤ کا شکار ہے۔

یہاں کہانی آگے بڑھتی ہے اورآہستہ آہستہ پنکی دبئی میں مہر کی مدد سے جدید طرز زندگی اپنانا شروع کرتی ہے اور پھرکرداروں کی آپس میں چپقلش، رنجش، پسند اورناپسند اور ناتمام حسرتیں سامنے آتی ہیں۔

مصنف اور ہدایتکار شازیہ علی خان نے اس فلم کی کہانی بہت عمدگی سے لکھی ہے اور اسے حقیقت کے بہت قریب رکھا ہے۔ تاہم فلم کی ہدایتکاری کافی کمزور ہے اور کئی مقامات پر پٹری سے اترتی دکھائی دیتی۔ شاید ان کی ساری توجہ دو مرکزی کرداروں کی جانب رہی جس سے عدنان جعفر کا اہم کردار کافی نظرانداز ہوا، مثلاً پوری فلم میں اسے اپنے دفترمیں کام کرتے ہوئے نہیں دکھایا گیا جہاں وہ بے پناہ مصروف رہتا تھا۔

یہ فلم دبئی کی کہانی کے طور پر پیش کی گئی ہے اور اس کی ہدایتکار شازیہ کا کہنا ہے کہ یہ فلم انہوں نے فلم فیسٹیولز کے لیے بنائی تھی جو ساتھیوں کے اصرارپر سینیما میں بھی پیش کی جارہی ہے۔

اداکاری کی بات کریں تو ہاجرہ یامین نے جس خوبی سے یہ کردار نبھایا ہے وہ ہرتعریف کی مستحق ہیں۔ گاؤں کی ایک سادہ سی لڑکی جو بھینس کا دودھ نکالتی ہے گھر کے معمولی کام کاج کرتی ہے وہ دبئی جاکر کیسے آہستہ آہستہ نئی دنیا کے رنگ ڈھنگ اپناتی ہے اور ساتھ ہی خود اپنی کھوج میں بھی لگی رہتی تھی۔ ہاجرہ نے اپنا کردارانتہائی محنت اور لگن سے نبھایا ہے جس کے لیے ان کے لیے وہ کم ازکم بہترین نئی اداکارہ کے ایوارڈ کی مستحق ہیں۔

کرن ملک کا کردار ان کی شخصیت کے عین مطابق تھا جس کے لیے شاید انہیں بالکل محنت نہیں کرنا پڑی ہوگی۔ دبئی کی امیر بیگمات کا کردار جو وہاں کی ہائی سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے ان کے لیے کچھ مشکل نہیں تھا اور انہوں نے اسے آسانی سے ادا کیا۔

عدنان جعفر نے اپنا مشکل کردار نخوبی ادا کیا اگرچہ ان کے پاس گنجائش کم تھی تاہم یہاں بھارت سے تعلق رکھنے والے سنی ہندوجا کی تعریف لازمی ہوگی جن کا سنتوش کا کردار لاجواب تھا۔ پنکی اور سنتوش کے کرداروں کے خاموش ان کہے پیارکوبہت عمدگی سے نبھایا گیا خاص کر جو ان کا الوداعی سین تھا وہ حقیقاتاً کمال تھا۔

ہاجرہ خان کے پاس انتہائی مختصر سے کردار میں کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہ تھا۔ بطور ایک کلب ڈانسر ان کے بمشکل چند سین تھے تاہم وہ اپنے وجود کا احساس دلانے میں ضرور کامیاب رہیں۔

فلم میں بے جا اور مسلسل انگریزی کا استعمال اسے عام سینیما ناظر کے لیے مشکل اور روکھا بنادیتا ہے۔

فلم بنانے والوں کو ایک بات سمجھنا ہوگی کہ ناول اور فلم میں فرق ہوتا ہے۔ ایک اچھی کہانی اچھی فلم اس وقت بنتی ہے جب اسے اچھا فلمایا جائے جبکی فلم میں ہر چیز مکالمے سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کچھ دکھادینا بھی کافی ہوتا ہے۔

دو گھنٹے سے کچھ اوپر فلم اس لیے ہی طویل محسوس ہوئی کیونکہ کرداروں کے پس منظرکو کہانی میں دکھانے سے زیادہ ان کے مکالمے پرتوجہ رہی۔

دبئی کے آؤٹ ڈور سین بھی بہت ہی ادھورے سے محسوس ہوئے اور دبئی دیکھنے میں وہی تشنگی رہی جو دبئی میں بننے والی تقریباً ہر فلم میں رہ جاتی ہے۔

فلم سینیما میں دیکھی جاتی ہے اور سینیما کے بڑے پردے پراتنے کلوزاپ اچھے نہیں لگتے۔ فیسٹیول کی فلم میں ہاتھ میں پکڑا ہلتا کیمرا شاید چل جائے کمرشل سینیما میں برا لگتا ہے۔ اسی لیے یہ فلم تکنیکی اعتبار سے بہت کمزور ہی کہلائے جائے گی۔
تاہم اس فلم کی سب سے اچھی بات ہے کہ ہاجرہ یامین کی صورت میں ایک اچھی اداکارہ سینیما کو مل گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).