وزیر ٹیکس – کنہیا لال کپور


اس دن جب مجھے وزیر ٹیکس کا خط ملا تو میں بہت حیران ہوا۔ وزیر ٹیکس سے میری رسم وراہ تک نہ تھی اور مجھے سان گمان نہیں تھا کہ مجھے نہ صرف خط لکھے گا بلکہ اپنے یہاں چائے پر مدعو بھی کرے گا۔ وزیر ٹیکس نے لکھا تھا۔

محترمی!
مجھے آپ کی آج بہت ضرورت ہے۔ اگر ہو سکے تو چار بجے میرے یہاں تشریف لائیے اور میرے ساتھ چائے پیجئے، آپ سے بہت ضروری باتیں کرنی ہیں۔
مخلص
وزیر ٹیکس

یہ خیال کرتے ہوئے کہ وزیر ٹیکس جیسے سمجھ دار آدمی سے ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے یعنی اس نے دعوت نامہ کسی اور کو بھجوانے کی بجائے مجھے بھجو ا دیا ہے۔ پہلے تو میں اس کے ہاں جانے سے جھجکا لیکن تین بجے وزیر ٹیکس کے سیکرٹری نے فون پر مجھے سے وقت مقررہ پر پہنچ جانے کی درخواست کی تو میں یہ سمجھا کہ وزیر ٹیکس ضرور کسی نا گہانی مصیبت میں پھنس گیا ہے اور اسے میرے مشورے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں ٹھیک چار بجے اس کی کوٹھی پر پہنچ گیا۔

” جے ہند مزاج کیسے ہیں؟ آج موسم خوشگوار ہے۔ تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ! وغیرہ وغیرہ” رسمی باتوں کے بعد وزیر ٹیکس مجھے اپنے ڈرئنگ روم میں لے گئے اور ایک پر تکلف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بیرا چائے لایا۔ وزیر ٹیکس نے میرے لیے چائے کا پیالہ بنا تے ہوئے کہ کہا ”آپ حیران ضرور ہوں گے کہ میں نے آپ کو خط بھیجا لیکن بات دراصل یہ ہے کہ مجھے واقعی آپ کی ضرورت ہے۔ “

فرمائیے۔ میں نے عاجزی سے کہا۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بڑے ذہین آدمی ہیں۔

صاحب! میں کیا ہوں یہ تو آپ کی ذرہ نوازی ہے۔
کسر نفسی کی ضرورت نہیں۔ آپ واقعی بڑے ذہین آدمی ہیں۔ اور مجھے اس وقت واقعی ذہین آدمی کی ضرورت ہے۔

فرمائیے۔
آپ جانتے ہیں میں خسارے کا بجٹ تیار کرنے کا ماہر ہوں۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں تین سال ہوئے آپ نے بجٹ میں پچاس کروڑ کا خسارہ دکھا یا تھا۔ پچھلے سال ستر کروڑ اور اس سال تو آپ نے اپنے تمام پچھلے ریکارڈ مات کر دیے یعنی ننانوے کروڑ۔ بس اسی کے متعلق آپ سے مشورہ کرنا ہے۔

گستا خی معاف! لیکن مجھے بجٹ تیار کرنے کا کوئی تجربہ نہیں نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنا ذاتی بجٹ تیار کرنے میں بھی اکثر ناکام رہتا ہوں۔ اسی کو لیجیے کہ آج مہینے کی بیس تاریخ ہے اور میرے بٹو ے میں صرف ایک کھوٹی چونی ہے۔ اور ابھی بجلی کا بل، درزی کا بل اور اسی قسم کے متعد دبل مجھے ادا کرنے ہیں۔ اس حالت میں۔

چھوڑئیے یہ قصہ، وزیرٹیکس نے میری بات کانٹے ہوئے کہا، آپ کے بٹوے میں کم از کم کھوٹی چوٹی تو ہے۔ یہاں خزانے میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔

عجیب بات ہے لیکن آپ اتنے نئے ٹیکس ہر سال لگاتے ہیں، وہ روپیہ کہاں جاتا ہے؟
آپ بھی عجیب سادہ لوح ہیں۔ وزیر نے ذرا بے تکلف ہوتے ہوئے کہا۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ اگر ادھر میں نئے ٹیکس لگاتا ہوں تو ادھر فوراً اخراجات بڑھا دیتا ہوں۔ اس حالت میں خزانے میں کچھ بچ رہنے کے کیا امکانات ہیں؟

لیکن اخراجات کیوں بڑھاتے ہیں؟ میں نے ذرا چیں بہ جبیں ہو کر پوچھا۔
اخراجات نہ بڑھاؤں تو خسارہ کیسے دکھا سکتا ہوں؟

خسارہ نہ دکھائیے۔ میں نے آہستہ سے کہا
خسارہ نہ دکھاؤں؟ وزیر ٹیکس نے چمک کر کہا۔ تو پھر وزیر ٹیکس کیسے رہ سکتا ہوں؟ پھر تو مجھے وہی کرنا پڑے گا جو پیشہ آبا ء ہے۔

یعنی؟
خیر چھوڑئیے، یہ قصہ، ہاں یہ بات ہے کہ مجھے اخراجات بڑھا نا ہی پڑتے ہیں۔ دراصل میں اس معاملہ میں کچھ مجبور سا ہوں۔ اب اس سال ہی دیکھئے۔

اس سال میں نے نئے وزیر مقرر کیے۔ دس نئے سفیر غیر ممالک میں بھیجے، پانچ سو نئے سیکرٹری تعینات کیے۔ ساڑھے سات سو ڈپٹی سیکرٹری پندرہ سو اسسٹنٹ ڈپٹی سیکرٹری اور اگر سب اسسٹنٹ ڈپٹی سیکرٹریوں کی تعداد پوچھو تو شاید بتا بھی نہ سکوں۔

نو وزیر۔ دس سفیر! یہ تو نا قابل یقین سی بات معلوم ہوتی ہے۔
ناقابل یقین؟ اچھا گن لیجیے۔ وزیر قحط۔ وزیر وعدہ، وزیر تقریر، وزیر جلسہ، وزیر جلوس، وزیر جیل، وزیر مذاق، وزیر اعداد و شمار۔ اور سفیر کون سے نئے ممالک میں بھیجے؟ ان ممالک کے نام تو مجھے اچھی طرح نہیں آتے بس یہ سمجھ لیجیے کہ اب دنیا کے کونے کونے میں ہمارے سفیر ہیں۔ مثلا ایک جزیرہ ”جگ مگ مگ جگ” ہے بحرا لکاہل میں ہے۔ یا شاید بحر او قیانوس میں اس کا رقبہ صرف ایک مربع میل ہے۔ آبادی پچاس ساٹھ کے قریب ہو گی۔ وہاں میں نے ابھی ایک سفیر کو تعینات کیا ہے۔

لیکن یہ نئے وزیر اور سفیر کچھ کام بھی کرتے ہیں یا محض اخراجات بڑھانے کے کام آ رہے ہیں۔
اخراجات بڑھانا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی یہ اور بہت سے کام انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وزیر قحط کو لیجیے۔

ہاں ہاں، ان حضرات کا کیا کارنامہ ہے؟
ان کا کارنامہ یہ ہے کہ یہ ملک کی ہر چھوٹی بڑی ریاست پر قحط مسلط کر رہے ہیں۔ ابتداء انہوں نے ایک شمال مشرقی ریاست سے کی ہے، لیکن انتہا کہاں کریں گے۔ اس کا علم ان کے سوا کسی کو نہیں۔ یہ حضرت جب چاہیں کسی قسم کے قحط کو معرض وجود میں لاسکتے ہیں۔ خوراک کا قحط، کپڑے کا قحط، مٹی کے تیل کا قحط یا محض مٹی کا قحط۔

خوب! میں نے مسکرا کر کہا۔ اور وزیر مذاق؟
ہا ہا ہا وزیر مذاق! بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ ان کا کام سے مذاق کرنا ہے۔ جوں ہی کوئی مسئلہ عوام کی پڑیشانی کا باعث بنتا ہے اور ان کی توجہ اس طرح دلائی جاتی ہے، یہ اسے ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔

مثلاً؟
اگر عوام شکایت کریں کہ چائے حد سے زیادہ مہنگی ہو گئی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر چائے مہنگی ہو گئی ہے تو سوکھی گھاس کا جوشاندہ پیا کیجئے۔ یہ بات نہ ہوئی تو میں انہیں پانچ ہزار ماہانہ پر تعینا ت نہ کرتا۔ خیر چھوڑئیے یہ قصہ، ہم اصل موضوع سے بھٹک رہے ہیں۔ دراصل میں نے آپ کو اس لیے نہیں بلوایا کہ نئے وزیروں یا سفیروں کے کارناموں سے آگاہ کروں میرا مطلب کچھ اور ہی تھا۔

ارشاد۔
آپ چونکہ ذہین آدمی ہیں، اس یے ذرا اپنے دماغ سے کام لیجیے اور مجھے بتائیے کہ ننانوے کروڑ روپے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کون کون سے نئے ٹیکس لگائے جائیں؟
مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2