گوگل کے سربراہ سندر پچائی کی امریکی سینیٹ میں پیشی


Sheryl Sandberg and Jack Dorsey

گوگل کے سربراہ سُندر پِچائی سینیٹ کے پچھلے اجلاس میں پیش نہیں ہوئے تھے اور ان کی نشست کو خالی رکھا گیا

گُوگل کے سربراہ سُندر پِچائی کو آج یعنی منگل کو واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی میں پیش ہو کر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل اُنھیں سینیٹ کی انٹیلیجینس کی کمیٹی کے سامنے ستمبر میں پیش ہونا تھا مگر وہ وہاں حاضر نہ ہوئے۔

اُن کی غیر موجودگی اس کمیٹی میں ان کی خالی نشست کی وجہ سے واضح طور پر محسوس کی گئی۔ سُندر پِچائی کا جنوبی بھارت کے شہر تامل ناڈو کے ایک قصبے مدھورائی سے تعلق ہے۔ بعد میں ان کی ابتدائی تعلیم چنّائی کے ایک علاقے اشوک نگر میں ہوئی۔ اب وہ بھارتی نژاد امریکی شہری کی حیثیت میں دنیا کی ایک بڑی انٹرنیٹ کمپنی گوگل کے سربراہ بن چکے ہیں۔

امریکی سینیٹ کی اس کمیٹی کے سامنے فیس بُک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیرِل سینڈبرگ اور ٹویٹر کے چیف ایگزیکیٹو جیک ڈورسی پیش ہوئے تھے جہاں ان کا سخت مواخذہ ہوا تھا۔

اب سندر پِچائی کی باری ہے اور یہ لمحہ ان کیلئے آسان نہیں ہوگا۔

سینیٹ کی کمیٹی میں پیش ہونے سے پہلے سندر پِچائی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی کمپنی کی خدمات پر فخر کرتے ہیں جس نے دنیا بھر میں اور خاص کر امریکہ میں عام لوگوں کو بااختیار بنایا ہے۔

’وہ مقامات جو گوگل میپ نہیں دکھاتا‘

آپ انسان ہیں یا کمپیوٹر؟ اب بتانا نہیں پڑے گا

گوگل کے پاس موجود ذاتی معلومات کو کیسے مٹایا جائے؟

سینیٹ کی کمیٹی میں پیشی کے دوران مندرجہ زیریں نکات اٹھائے جا سکتے ہیں:

1- پراجیکٹ ڈریگن فلائی

Google, Sundar Pichai

اب گوگل کے سُندر پِچائی سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے

گوگل چین کیلئے ایک متنازعہ سرچ انجن کے بنائے جانے کے خیال پر کام کرتا رہا ہے جس کے بارے میں سب سے پہلے اگست میں ’دی انٹرسیپٹ‘ نے خبر بریک کی تھی اور بعد میں اس کی تصدیق گوگل ہی کے پرائیویسی چیف نے کی تھی۔

گوگل چین میں پہلے ہی اس ملک کی آمرانہ نظام حکومت کے قوانین کے مطابق سن 2006 میں ایک مقامی سرچ انجن متعارف کرا چکا ہے۔

یہ سرچ انجن چین کے قوانین کے مطاق ترتیب دیا گیا تھا لیکن بعد میں یعنی سن 2010 میں یہ کہہ کر اسے ہٹا لیا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے انٹرنیٹ پر فعال لوگوں پر سائیبر اٹیکس میں اضافہ ہو گیا تھا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ گوگل کے چین میں پیچھے ہٹنے کا عمل اس وقت کیا گیا جب امریکہ اور چین کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

تین ماہ سے جاری امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ فی الحال تھم گئی ہے، لیکن ہواوای کی چیف فنانس آفیسر، مِنگ وانژُو کی کینیڈا میں گرفتاری کے بعد تعلقات میں سرد مُہری برقرار نظر آتی ہے۔

سینیٹ کی کمیٹی گوگل سے یہ پوچھ سکتی ہے کہ وہ اس پس منظر میں چین میں نئے منصوبے کا آغاز کیوں کر رہا ہے۔

اپنے پہلے سے جاری شدہ بیان میں سندر پِچائی نے کہ ہے کہ ’ہم چاہے کسی بھی نئی مارکیٹ میں جائیں ہم اپنی امریکی جڑوں کو بھولتے نہیں ہیں۔‘

2- سیاسی تعصب

اگرچہ قدامت پسند سیاستدانوں کے خلاف تعصب کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن ان دعووں کے ساتھ کبھی ثبوت نہیں دیے جاتے ہیں، پھر بھی صدر ٹرمپ Stopthebias کا ہیشٹیگ استعمال کر کے اس معاملے کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے گوگل پر کانگریس سے اپنے سالانہ خطاب کو دانستاً ’پوشیدہ طریقوں سے‘ زیادہ پھیلانے میں ناکامی کا الزام لگایا تھا۔

سُندر پِچائی نے اپنے جاری شدہ بیان میں اس موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے: ’میں اپنی اس کمپنی کو کسی بھی سیاسی تعصب سے بالا تر ہو کر چلا رہا ہوں اور یقینی بناتا ہوں کہ ہماری خدمات اسی طرح کام کرتی رہیں۔‘

3- ڈیٹا کا جمع کرنا

گوگل کی کمپنیوں میں سے آٹھ کمپنیوں کے ایک ارب سے زیادہ فالؤرز ہیں: یو ٹیوب، گوگل براؤزر، جی میل، گوگل میپ، ڈرائیو، اینڈرائیڈ، اور گوگل پلے کے علاوہ خود گوگل سرچ انجن کے اربوں لوگ صارف ہیں۔

یہ معاملہ بھی اٹھے گا کہ ان سائیٹوں پر لوگوں کی ذاتی معلومات کا جو اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہوتا ہے اسے کس طرح محفوظ رکھا جاتا ہے۔

اگست میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گوگل اُس وقت بھی اپنے صارفین کی لوکیشن کا پیچھا کرتا رہتا ہے جب انھوں نے لوکیشن سروس کو بند کیا ہوا ہو۔

4- سیکیورٹی میں شگاف

اس برس کے آغاز میں گوگل پلس کے سیکیورٹی کے نظام میں شگاف کی خبریں آنے کے بعد گوگل کو یہ سروس بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ ایک بلاگ میں یہ کہا گیا تھا کہ پانچ لاکھ گوگل صارفین کا ڈیٹا ایک ایپ ڈویلیپر نے حاصل کر لیا تھا۔

ابھی سوموار کو خود گوگل نے کہا کہ پانچ کروڑ صارفین کا ذاتی ڈیٹا بھی ایک اور بگ کی وجہ سے عام لوگوں کی رسائی میں آ گیا، اس وجہ سے گوگل کو یہ سروس اپنے پہلے سے طے شدہ اعلان سے قبل ہی بند کرنا پڑی۔

ایمیزون، فیس بک، یاہو اور میریٹ جیسے اداروں کے ڈیٹا ظاہر ہو جانے کے واقعات کے پس منظر میں سندر پِچائی سے مزید یقین دہانی حاصل کی جائے گی کہ وہ صارفین کے ذاتی ڈیٹا کو کتنی سنجیدگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ محفوظ بنائیں گے۔

5- بے انتہا اثر و رسوخ

ایک ڈیٹا تجزیے کے ٹول ’سٹیٹ کاؤنٹر‘ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 90 فیصد صارفین گوگل سرچ انجن کا استعمال کر رہے ہیں۔

اس کے بعد اس کے مقابل سرچ انجن بنگو اور یاہو کو صرف دو فیصد صارفین استعمال کرتے ہیں۔

لیکن کئی ماہرین اس بات پر پریشان ہیں کہ کیا اس سرچ کے دوران گوگل سے باہر کے ادارے اس سرچ کو متاثر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

’اسقاطِ حمل کی گولیوں کی آن لائن تلاش میں دوگنا اضافہ‘

اِدھر غربت، اُدھر دولت: تصویری جھلکیاں

ٹیکنالوجی کمپنیوں نے ٹریزا مے کے الزامات مسترد کر دیے

6- جنسی ہراسیمگی

گوگل کے اندر ایک ’می ٹو‘ کی تحریک چل رہی ہے جس کا مقصد جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے واقعات کی بیخ کُنی کرنا ہے۔ گوگل کے سربراہ سندر پچائی نے ایک خط کے ذریعے خود انکشاف کیا کہ سن 2016 سے لیکر اب تک گوگل نے اپنے ادارے کی اندر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں 48 سٹاف ممبران کو برطرف کیا جن میں 13 سینئیر سطح کے ارکان بھی تھے۔

یکم نومبر کو ایسی ہی وجوہات کے باعث گوگل کا ہزاروں کا عملہ احتجاج کرتے ہوئے اپنے دفاتر سے باہر نکل گیا۔

اس احتجاج کی وجہ سے سندر پچائی نے جنسی ہراسیمگی کے واقعات میں زیادہ شفافیت کی پالیسی متعارف کرانے کا اعلان کیا اور سٹاف کیلئے اس ضمن میں لازمی ٹریننگ کا اعلان کیا، سا تھ ساتھ ہراسیمگی کی شکایت کرنے والوں کیلئے زیادہ ہمدردی دکھانے کی پیش کش بھی کی۔

لیکن گوگل سٹاف کی تنظیم، ٹیکنالوجی ورکرز اتحاد، نے سندر پچائی کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا خاص کر ان واقعات میں جن میں نشانہ بننے والے سٹاف ارکان کسی تیسری تنظیم یا ٹھیکیدار کمپنی کے ذریعے گوگل میں آکر کام کرتے ہیں۔

A Google employee (centre) holds a sign that reads

گوگل کے ملازمین اور ٹھکیدار کمپنیوں کے ذریعے گوگل میں کام کرنے والوں نے کمپنی کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف ماؤنٹین ویو، کیلیفورنیا میں احتجاج کیا

7- بہتر تنخواہیں

جنسی ہراسیمگی کے علاوہ گوگل پر اصل سٹاف کے ساتھ ٹھیکیدار کمپنیوں کے ذریعے سٹاف رکھنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کا سٹاف گوگل کے کل سٹاف کا نصف ہے۔ یہ لوگ کام تو گوگل کیلئے کر رہے ہیں لیکن ان کو گوگل کے سٹاف میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔

ٹھیکیدار کمپنیوں کے ذریعے گوگل کمپنی میں کام کرنے والے اس سٹاف کو وہ تنخواہیں یا فوائد نہیں ملتے ہیں جو گوگل کے کُل وقتی ملازمین کو ملتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ کسی روز بیمار ہو جائیں تو اس دن کی ان کی اجرت کاٹ لی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp