کیا مودی کو انتخابات کے نتائج سے پریشان ہونا چاہیے؟


کانگریس کارکن

تین ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ کانگریس کے کارکنان میں ایک نئی جان آ گئی ہے

انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی نے اہم ریاستوں میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ تو کیا انڈیا کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس پھر سے واپس میں آ گئی ہے؟

کانگریس راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ وہ مدھیہ پردیش میں ہونے والے کانٹے کے مقابلے میں بھی برتری رکھتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے حزب اختلاف کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی پارٹی ‘انکساری کے ساتھ عوام کی رائے’ کو قبول کرتی ہے۔

وسطی ریاست چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کو وسیع طور پر بی جے پی کا مضبوط گڑھ کہا جاتا ہے۔ نتائج کو اگر اس پس منظر میں دیکھیں تو ہم پاتے ہیں کہ سنہ 2014 کے انتخابات میں جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں تب سے اہم حزب اختلاف یعنی کانگریس کو ہر جگہ شکست کا سامنا رہا ہے۔

اس نے 20 فیصد سے کم مقبول ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ پارلیمانی انتخابات میں اسے 543 سیٹوں میں سے صرف 44 سیٹیں ہی ملی تھیں۔ اور اب یہ صرف دو بڑی ریاستوں میں ہی اقتدار میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بی جے پی کی اہم ریاستوں میں شکست، کانگریس کا جشن

‘نریندر مودی کا آخری داؤ’

بی جے پی نے ان ریاستوں کی 65 پارلیمانی سیٹوں میں سے 62 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ انڈیا کے ہندی بولنے والے رجحان ساز علاقے کا حصہ ہیں جس نے بی جے پی کو 225 میں سے 203 پارلیمانی نشستوں پر کامیابی دلائی تھی اور وہ سنہ 2014 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔

اس طرح اس علاقے میں کانگریس کی مضبوط کارکردگی سے پارٹی میں اچانک جان آ گئی ہے۔ اس سے پارٹی کے کارکنوں کے حوصلوں کو اعتماد حاصل ہوگا، گریزاں علاقائی اتحادیوں میں اسے زیادہ قبولیت حاصل ہوگی اور اس کے رہنما راہل گاندھی کی ڈگمگاتی شبیہ کو مضبوطی ملے گی۔

اس سے یہ پیغام جائے گا کہ مودی کی بی جے پی ناقابل شکست نہیں، انھیں شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ تمام چیزیں کانگریس کو آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں انتہائی ضروری رفتار حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

مودی

لیکن ان ریاستوں کے انتخابات آئندہ سال ہونے والے بڑے انتخابات کو ماپنے کا غلط آلہ ہو سکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کے دور حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی تھی کیونکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں چوتھی بار یہ حکومت میں آنے کے لیے انتخابات لڑ رہی تھی۔ راجستھان کی عوام کا مسلسل یہ ریکارڈ رہا ہے کہ وہ ہر بار برسراقتدار جماعت کو بدل دیتے ہیں۔

بی جے پی کے کارکنوں کو اس بات کی تسلی ہوگی کہ ان کی پارٹی حکومت مخالف رجحان کے باوجود پوری طرح سے اکھاڑ پھینکی نہیں گئی۔ مدھیہ پردیش کا مقابلہ اخری وقت تک کسی کے لیے بھی جیت کی بے یقینی کا شکاررہا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں زیادہ تر سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان دو طرفہ مقابلہ رہا۔ لیکن عام انتخابات میں علاقائی پارٹیوں کا کلیدی کردار ہو گا۔ آئندہ سال کے انتخابات میں کانگریس کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد اور مختلف ریاستوں میں مختلف ریاستی پارٹیوں سے اس کے رابطے زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو دھچکا

انتخابات میں انڈیا سے تعلقات کیوں موضوع نہیں؟

تیسری بات یہ کہ بی جے پی کی ایک سب سے بڑی طاقت یہ رہی ہے کہ بہت سی ریاستوں میں اس کے لائق رہنما ہیں اور ان میں سے کئی نے ایک مدت سے زیادہ کا عرصہ مکمل کر لیا ہے۔ خاندانی سیاست سے معذور کانگریس نوجوان علاقائی رہنماؤں کو پروان چڑھانے میں ناکام رہی ہے اور ہمیشہ گاندھی خاندان کے کرشمے پر انحصار کرتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس میں سیاسی تصور کی کمی ہے اور یہ بی جے پی کے بیانیہ کے خلاف کوئی قوی بیانہ سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔

اشوکا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گائلس ورنیئرز نے کہا: ‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اینٹی انکمبینسی کے کام کرنے پر منحصر ہیں جو ایک ایسا آسودہ خاطر رویہ ہے جس نے اسے ان علاقوں میں بھی مقابلہ میں بنائے رکھا ہے جہاں ترقی کے نتائج کی کمی، بے روزگاری اور دیہی پریشانیوں کے خلاف واقعی عدم اطمینان ہے۔’

ایودھیا

اپنے سخت گیر ہندو قوم پرست نظریے کے ساتھ بی جے پی اب سیاسی دائیں بازو کی نمائندگی کرتی ہے اور انڈیا میں یہ اہم قدامت پسند پارٹی ہے۔ علاقائی پارٹیوں نے کانگریس کی سنٹرسٹ سیاست کی جگہ ہڑپ لی ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ برسوں میں کانگریس پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔

ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آیا کانگریس کی انڈیا کی بدلتی ہوئی سیاست پر کوئی پکڑ ہے بھی یا نہیں۔

اپنی نئی کتاب ‘آڈیالوجی اینڈ آئڈنٹیٹی’ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سیاسی سائنسدان پردیپ کے چھبر اور راہل ورما کا کہنا ہے کہ انڈیا کی قیادت اب ‘مغربی تربیت یافتہ اشرافیہ’ نہیں کرتی اور لوگ اپنی جڑوں سے منسلک سیاست دانوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لائے ہیں، ایسے سیاست داں جو چھوٹے شہروں کے قدامت پسند اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں اور بی جے پی یا علاقائی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ زیادہ قدامت پسند اور دیسی اشرافیہ کی جانب اقتدار کی تبدیلی ہے جو کہ کانگریس سے کہیں چھوٹ گئی ہے۔

اب جو بہت واضح ہے وہ یہ ہے کہ سنہ 2019 کا عام انتخاب مسٹر مودی پر ریفرینڈم ہوگا۔

سنہ 2014 میں مودی تبدیلی کے وسیع ووٹ کی بنیاد پر واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان ووٹوں کو کھو دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیان بازی امید کی سیاست سے بدلے کی سیاست میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں ملک کی تمام تر خرابیوں کے لیے وہ کانگریس کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

ووٹر

اس کے ساتھ پارٹی نے باربار ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کی کال دی ہے۔ 16ویں صدی کی مسجد کو ہندو ہجوم نے سنہ 1992 میں مہندم کر دیا تھا۔

نریندر مودی کے بڑے بڑے وعدے بطور خاص زیادہ ملازمت کی پیداوار اور کسانوں کی آمدن میں اضافے نے اب انھیں کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ ملازمت کی کمی اور کسانوں کی پریشانی آئندہ سال کے انتخابات میں اہم مسائل ہوں گے اگر چہ ابھی یہ واضح نہیں کہ کسان بڑی تعداد میں ‘ناراض گروپ’ کے طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے بھی یا نہیں۔

لیکن مودی کے مقابلے کے لیے ایک مدمقابل رہنما کی کمی اور لوگوں کے لیے امید کے ایک بیانیے کو نہ پیش کر پانے کی ناکامی کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے لیے مودی کو مضبوط چیلنج کرنے میں آڑے آئے گی۔

منگل کے نتائج یقینا کانگریس کو نئی توانائی بخشیں گے لیکن صرف یہ بی جے پی جیسے نظریاتی حریف کو آئندہ سال ہرانے کے لیے کافی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp