ٹائیگرز: ایک عام سے شخص کی کہانی جو ’جنوں‘ سے بھڑ گیا


عمران ھاشمی

آیان (عمران ھاشمی) جو فلم میں عامر رضا کا کردار ادا کر رہے ہیں جان بچانے کے لیے چھپ کر بیٹھے ہیں

یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ مدد کے لیے ایک پکار ہے، ایک ایسی چیخ جو پہلی مرتبہ 1990 کے عشرے میں سنی گئی تھی لیکن اس کی بازگشت اب بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ فرق بس یہ ہے کہ کچھ نہیں بدلہ۔ یہ کہانی ہے پاکستان کے ایک کامیاب سیلز مین کی جو ایک ایسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہوتا ہے جو بچوں کے لیے ڈبے کا دودھ یا بے بی ملک فارمولا فروخت کرتی ہے۔ جب سیلز مین کو پتہ چلتا ہے کہ فارمولا دودھ پینے سے بچے مر رہے ہیں تو وہ پہلے تو کمپنی سے استعفیٰ دیتا ہے اور پھر اس دودھ کی فروخت کو روکنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے جو کہ ایک تکلیف دہ سفر ثابت ہوتا ہے۔

یہ کہانی ایک سچی کہانی ہے جس کو فلم کی شکل آسکر ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر ڈینس تانوچ نے دی اور اس میں حقیقی وسل بلوئر سید عامر رضا کا کردار بالی وڈ کے مشہور اداکار عمران ھاشمی نے ادا کیا اور کیا خوب کیا۔ حالانکہ فلم میں کوئی بوسہ بھی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیئے

جب باپ کو اپنی بچی کو دودھ پلانا پڑ گیا

بچے کو کب تک ماں کا دودھ پلایا جائے؟

فلم کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر کسی بھی لکھاری کے لیے لکھنا اور بالکل اسی طرح کسی عام سیلزمین کا کسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے خلاف کھڑا ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ سو فیصد ڈیوڈ اینڈ گولائتھ کی طرح ہے۔ لیکن اُس دیو مالائی کہانی میں تو ڈیوڈ گولائتھ کو مار دیتا ہے پر یہاں ڈیوڈ کی انتھک محنت اور بے انتہا قربانی کے باوجود گولائتھ وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے۔ فلم کا آغاز بھی اسی طرح ہوا جو کہ اس طرح کی حساس دستاویزی فلم کو پیش کرنے کا شاید سب سے بہتر طریقہ ہے۔

عامر رضا، ان کی اہلیہ شفقت اور عمران ھاشمی

عامر رضا اور ان کی اہلیہ شفقت ٹورانٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں عمران ھاشمی سے ملاقات کے دوران

ایک صحافی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ترجمان سے پوچھتا ہے کہ ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی کمپنی کو تیسری دنیا میں آپ کے بیچے گئے فارمولا دودھ کی وجہ سے ہونے والی سینکڑوں بچوں کی موت کی ذمہ داری لینی چاہیئے۔‘

ترجمان کا جواب ہوتا ہے: ’نہیں ہم نہیں لے سکتے۔‘

پہلے سین میں فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر، ان کے وکیل اور فارمولا دودھ کے خلاف کام کرنے والی کارکن ایک کمرے میں بیٹھے ہیں اور بات کر رہے ہیں کہ اس فلم کو بنانے میں کیا کیا مسائل درکار ہیں۔ خیال یہی ہے کہ اس فلم کا کسی طرح بھی دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جن جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہرجانے کا دعویٰ کرتی ہے تو سب ڈوب جائیں گے۔ نہیں شاید نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر بھی اس کمرے میں کہیں کوئی امید کی کرن بھی باقی ہے۔

پھر کہانی بالی وڈ کی شکل اختیار کرتی ہے جہاں فلم کے مرکزی کردار کی شادی ہو رہی ہے۔ وہ ایک سیلز مین ہیں لیکن جب تک وہ پاکستانی دوائیاں وغیرہ بیچتے ہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا اور جس دن وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی جس کا فلم میں فرضی نام ’لاسٹا‘ ہے، میں کام شروع کرتے ہیں، ان کی زندگی دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتی ہے۔

’لاسٹا‘ میں کام کے پہلے دن کا منظر بھی بہت دلچسپ ہے اور یہیں سے فلم کا نام بھی اخذ کیا گیا ہے۔ ’ٹائیگرز‘۔ جب سبھی نئے سیلز مین ایک کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں تو ایک انگریز مینیجر ان کو شیر کی طرح دھاڑنے کے لیے کہتا ہے۔ جب ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق دھاڑ چکتا ہوتا ہے تو مینیجر انھیں ڈانتا ہے کہ ایسے نہیں، زور سے دھاڑو۔ یہی اس کمپنی کی پالیسی نظر آتی ہے کہ سب کو بس کھا جاؤ۔

عمران ھاشمی

جب ایک کامیاب سیلز مین کو لگا کہ وہ جو کر رہا ہے وہ ٹھیک نہیں اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے اسے لڑنا پڑے گا

پوری فلم میں عامر کی، جس کا فلمی نام آیان ہے، ملٹی نیشنل کمپنی کے اس غیر اخلاقی طرز عمل کے خلاف جدوجہد دکھائی گئی جس میں کمپنی ڈاکٹروں کو تحفے تحائف دے کر مجبور کرتی ہے کہ وہ ماں کے دودھ پر فارمولا دودھ کو فوقیت دیں۔ ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کا بچہ تندرست ہو اور بالکل اسی طرح نظر آئے جس طرح فارمولا ملک پینے والے بچے دودھ کے ڈبے یا اشتہارات میں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن تیسری دنیا کی حقیقت ذرا مختلف ہے۔ جب غریب مائیں دودھ بنانے کے لیے اس میں عام پانی ملاتی ہیں جو کہ گندہ اور جراثیموں سے بھرا ہوتا ہے تو بچے بیمار ہو جاتے ہیں۔ اور یہی اس وقت ہوا۔ بچوں میں پہلے شدید پانی کی کمی ہوتی ہے، اسہال ہوتا ہے اور پھر اندرونی اعضا فیل ہونے کے باعث موت ہو جاتی ہے۔ آیان اور اس کا خاندان اس کے خلاف جہاد کرتے ہیں پر انہیں اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آیان کو ملک چھوڑنا پڑتا ہے، اس پر بلیک میلنگ کے الزامات لگتے ہیں، گھر والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اس کے ملک سے باہر رہنے کے دوران اس کے والدین کی موت ہو جاتی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ڈاکیومنٹری کوئی بھی چینل نہیں چلاتا، بس اخبارات اور جرائد میں اس کے متعلق چھپتا ہے اور بے بی ملک ایکشن اور آئی بی ایف اے این (انٹرنیشنل بے بی فوڈ ایکشن نیٹ ورک) اس کے ساتھ آخر تک کھڑا رہتا ہے۔

آیان یا عامر کی جیت اس وقت ہوتی ہے جب کینیڈا کی حکومت بھی ان کی کوششوں کو سراہتی ہے۔

آج کل عامر کینیڈا میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سات سال بعد ان سے ملے تھے۔

یہ فلم پہلے بھی دنیا کے کئی ممالک میں دکھائی جا چکی ہے لیکن اسے جب بھی دکھایا گیا لوگوں کا ردِ عمل یہی تھا کہ جیسے کہ یہ آج کی کہانی ہے۔

بے بی ملک ایکشن کی ایک پریس ریلیز کے مطابق دنیا بھر میں ٹائیگرز فلم کے ٹریلر کو ایک کروڑ تیس لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے اور ایک کروڑ دس لاکھ لوگ فلم کا ٹریلر یو ٹیوب پر دیکھ چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp