ذوماٹو کے ڈرائیور کی ڈلیوری کا کھانا کھانے پر نوکری جانے کے بعد کئی لوگوں کی ہمدردی


ذوماٹو کمپنی کا ڈلیوری ڈرائیور کھانا کھا رہا ہے

@Madan_Chikna
ذوماٹو کمپنی کے ڈلیوری ڈرائیور کی ڈلیوری کا کھانا کھاتے ہوئے ویڈیو منظر عام پر آگئی تھی

انڈیا میں کھانے کی ڈلیوری کرنے والے ایک شخص کی گاہک کا کھانا کھاتے ہوئے ویڈیو سامنے آنے کے بعد اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے جس کے بعد ملک میں ڈلیوری کی صنعت کے بارے میں ایک بحث چھڑ گئی ہے۔

یہ ویڈیو جنوبی انڈیا کے علاقے مدورائی میں بنائی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں کھانے کی ڈلیوری کرنے والی معروف ایپ ذوماٹو کی ٹی شرٹ میں ملبوث ایک شخص ڈلیوری کے کھانے کے ڈبوں میں سے کھانا کھا کر انھیں سیل کر کے واپس بیگ میں ڈال دیتا ہے۔

یہ ویڈیو ہزاروں مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جرمنی: اسلامک کانفرنس کے کھانے میں سور کے گوشت پر ہنگامہ

کھانا پکانا واقعی اطمینان بخش ہوتا ہے: مشلین سٹار شیف

کھانا بنانے کی شوقین ایک بغیر پیٹ والی لڑکی!

https://twitter.com/SudIndus/status/1072142980008558593


ڈوماٹو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کمپنی ‘کھانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی شکایات پر سخت رد عمل ظاہر کرتی ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اس شخص سے بات کی ہے اور ہم اس بات کو سمجھاتے ہیں کہ ان کا یہ اقدام ایک غلطی تھی، ہم نے انھیں اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے۔’

کمپنی نے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے لیکن کمپنی کی جانب سے اسے نوکری سے برخاست کیے جانے کے بعد بحث یہ ہو رہی ہے کہ اس صورتحال میں رویہ ہمدردانہ ہونا چاہیے تھا۔

کئی افراد نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ڈلیوری کے کام میں طویل اوقات، مشکل صورتحال اور کم تنخواہیں ہوتی ہیں۔

بی بی سی نے ڈلیوری کا کام کرنے والے جن افراد سے بات کی انھوں نے بھی اسی قسم کی صورتحال بیان کی ہے۔

https://twitter.com/Rajyasree/status/1072443651106717698

ڈلیوری کا کام کرنے والے ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ‘پہلے ہمیں ہر ڈلیوری کے 60 روپے ملتے تھے لیکن پھر 40 ملنے لگے۔ میں یہ کام کرتا رہا کیوں کہ مجھے اپنے بچوں کو تعلیم دینی تھی۔ اب کمپنی اسے کم کر کے 30 روپے فی ڈلیوری دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پیٹرول مہنگا ہے اور میرے بچے بھی ہیں۔آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟’

ایک دوسرے شخص کا کہنا تھا ‘اپنی فیملی میں میں اکیلا کمانے والا ہوں۔ اگر میرے ساتھ حادثہ پیش آ جائے تو میرے پاس تو انشورنس پالیسی بھی نہیں ہے۔ کمپنی بھی انشورنس نہیں دیتی ہے۔ کچھ ہوجائے تو میں بڑی مشکل میں پڑ سکتا ہوں اور کمپنی کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔’

ایپ کے ذریعے ڈلیوری انڈیا میں قدرے نیا کاروبار ہے لیکن کم ہی عرصے میں اس میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا میں ہر برس 60 سے 80 لاکھ نئے افراد نوکری کی تلاش میں مارکیٹ میں آتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں نوکریاں اس شرح سے نہیں بڑھ رہیں اور لوگ غیر موافق حالات اور کم تنخواہوں والی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں تاکہ کوئی ذریعہ آمدن تو ہو۔

پورے انڈیا میں ذوماٹو کے پاس ڈلیوری کرنے والے ڈیڑھ لاکھ افراد ملازم ہیں۔ ’سوِیگی‘ نامی ایک دوسری ڈلیوری ایپ کا کہنا ہے کہ اس کہ پاس ہر وقت تقریباً ایک لاکھ ڈلیوری پارٹنر موجود ہوتے ہیں۔

کئی کمپنیاں یہ اعداد و شمار عام نہیں کرتیں کہ وہ ہر ماہ کتنے آرڈر ڈلیور کرتی ہیں لیکن ذماٹو نے حال ہی میں ایک بیان میں بتایا تھا کہ انھیں ہر ماہ تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ آرڈر موصول ہوتے ہیں۔

اس انڈسٹری کے حجم کے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

تاہم ذوماٹو اور سوِیگی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ اپنے ڈلیوری پارٹنرز سے نامناسب ڈیڈ لائنز میں ڈلیوری مکمل کرنے یا پھر ‘ٹارگٹ’ پورے نہ کرنے پر ان پر جرمانے عائد کرتے ہیں۔

https://twitter.com/vakeel_saheba/status/1072367135198990336

ذوماٹو کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمارے تمام ڈلیوری پارٹنر آزاد کنٹریکٹر ہیں اور اپنی مرضی سے (کبھی بھی اور جتنی دیر تک چاہیں) ہمارے پلیٹ فارم کے ذریعے کھانا آرڈر کرنے کے لیے لاگ اِن کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی مرضی سے جتنے مرضی وقفے کے لیے آف لائن (ایک گھنٹے یا ایک ہفتے) جا کر واپس آ سکتے ہیں۔ اور تمام پارٹنرز کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ انھوں نے جب بریک لینی ہو تو وہ آف لائن چلے جائیں۔’

ان مضمون میں جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو انشورنس جیسی مراعات دیتے ہیں۔

ڈلیوری کا کام کرنے والے دیپک نامی ایک شخص نے بتایا کہ انھیں کبھی بھی بریک لینے پر جرمانہ نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رکھ رہی ہیں جس سے ان کی آمدنی میں کمی آ رہی ہے اور کسٹمر شاد و نادر ہی ٹپ دیتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ذوماٹو کے اس ڈلیوری ڈرائیور کی ویڈیو دیکھی ہے اور انھیں اس سے ‘کسی قسم کی ہمدردی نہیں ہے’

’غلط کو غلط ہی کہتے ہیں۔ ہمدردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر آپ کو کوئی اپنا جھوٹا کھانا دے تو کیا آپ کھائیں گے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp