ٹپر واسنی پروین عاطف کا اگلا پڑاؤ


لیجیے، پروین عاطف بھی رخصت ہو گئیں۔ میری اور میری بہنوں کی شخصیت اورہستی کی تعمیر کرنے والی قیمتی ہستیاں دھیرے دھیرے زندگی کے سٹیج سے غائب ہو رہی ہیں۔ دنیا کا نگار خانہ ایسا ہی ہے، یہاں لوگ آتے اور وقت پورا ہو جانے کے بعدنیستی کے دھندلکوں میں غائب ہو جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے بغیر آپ کی زندگی، ادھوری، تشنہ اور خالی خالی رہ جاتی ہے۔ میرے لئے میری پھوپھی پروین عاطف بھی اک ایسی ہی خاص شخصیت تھیں جن کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

آج میں جب ان کی چھتر چھایا سے محروم ہو گئی ہوں تو احساس ہو رہا ہے کہ وہ کتنی مختلف، جی دار، دبنگ اور انوکھی عورت تھیں۔ اپنے بھائی احمد بشیر کی طرح پاکستان کی سچی عاشق، ہمیشہ کچھ انوکھا کر گزرنے کی آرزو سے چور، فائٹر اور فعال۔ ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد، کوئی بھی دور، کسی قسم کی جدوجہد سے خالی نہیں رہا۔

ایک زمانے میں انہیں سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ گمان تھا کہ سیاست ملک کو بہتری کی طرف لے جاسکتی ہے۔ سو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئیں۔ بھٹو اور بے نظیر نجات دہندہ نظر آتے تھے لہذا پارٹی کو جتوانے کے لئے انتھک محنت کی۔ وقت دونوں کو ہڑپ کر گیا aور وہ بھی پاکستان کے لئے کوئی کارہائے نمایاں سر انجام نہ دے سکے۔ پیپلز پارٹی سے محبت کا بت زمین پر گر کے پاش پاش ہو گیا تو پروین نے بھی ہاتھ جھاڑ لئے اور اگلے مشن کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

پروین عاطف جیسے لوگ کسی مقصد کے بغیر جینے کو جینا نہیں سمجھتے، لہذا انہوں نے پاکستان ویمن ہاکی ٹیم کے فروغ کے لئے اپنی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔ ملاؤں کے غیض و غضب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ویمن ہاکی ٹیم کو نئی منزلوں سے روشناس کروایا۔ ملا لڑکیوں کے ٹریک سوٹ دیکھتے رہ گئے اور لڑکیاں بین الاقوامی مقابلوں میں گول پہ گول کرتی چل گئیں۔ ضیاء الحق ٹیم کی عین روانگی کے وقت حکم جاری کر دیا کرتے تھے کہ ہماری لڑکیاں ہاکی نہیں کھیلیں گی اور ایک دو بار تو بیرونی دورے منسوخ بھی کرنا پڑے۔

1971 ؁ کی جنگ میں جب نوے لاکھ پاکستان فوجی قیدی بنا لئے گئے تو پروین پھر اٹھ کھڑی ہوئیں جس پتی دیو کی قید میں وہ خود محبوس تھیں، اس نوے لاکھ کے جتھے میں ہندوستان کی قید میں وہ بھی بے بس بیٹھا تھا۔ پروین نے قیدیوں کی بیویوں کو اکٹھا کیا اور ایک انجمن بنا کر نیویارک میں واقع یو این او کی بلڈنگ کے آگے احتجاج کرنے جا کھڑی ہوئیں۔

پروین عاطف ترقی پسند سوچ کی علمبردار، دلیر اور سچ پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 60 کی دہائی میں گھر سے برقعہ پہنے یونیورسٹی اولڈ کیمپس جا پہنچیں اور ماسٹرز کر کے دم لیا۔ ہمارے شریف النفس دادا جی روتے پیٹتے رہ گئے کہ یہ کالاکپڑا ہمارے گھر کہاں سے آ گیا؟ مگر انہیں چونکہ احمد بشیر جیسے دبنگ اور باغی بھائی کی ہلاشیری ملی ہوئی تھی اس لئے وہ تعلیم کے میدان میں ڈٹی رہیں۔ اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور ساتھ ساتھ کلاسیکل رقص اور ستار بجانے کی تربیت بھی حاصل کی۔

آج جب نوجوان طالبات کو میں اتنا بنیاد پرست دیکھتی ہوں تو مجھے پروین عاطف کا یونیورسٹی کی ایک تقریب میں طالبات کو کہا ہوا جملہ یاد آ تا ہے کہ :
” ہمارے دور کی خواتین کی خواہش اور جدوجہد یہ تھی کہ اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کریں، خود کو آگے لائیں، برقعے اتاریں۔ “

ہماری ساری فیملی کی رگوں میں قدرتی طور پر فنونِ لطیفہ کی رنگ پچکاریاں رچی بسی تھیں۔ اس طوفان کو بھلا کوئی کیسے روک سکتا؟ یہ تو آنے والے وقت نے ثابت کر ہی دیا۔ پروین عاطف نے ٹی وی سیریل لکھے، ڈاکو مینٹری فلمیں بنائیں، سیاحت میں پہاڑوں کی چوٹیاں سر کیں، سفر نامے، افسانے لکھے، لیاقت اور استقامت سے آگے بڑھتی رہیں۔

جوانی میں اتنی حسین تھیں کہ اہلِ لاہور انہیں مدھو بالا کہہ کر پکارتے تھے۔ زندگی بھر میری رفیق بلکہ soul mate بنی رہیں۔ ہمارا ساتھ بہت گہرا اور یونیک تھا۔ میں خود تو کچھ بھی نہیں، بس ان کی پرچھائی ہوں۔ وہ میری ہیرو تھیں اور ہیرو رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).