لاپتا پاکستان کے گم شدہ افراد


بھاری بوٹوں کی دھمک سے زمین گونج رہی تھی۔ کالے نقابوں سے چہرے چھپائے اسلحے سے لیس بنا وردی والے آدھی رات کو دروازے پیٹ رہے تھے۔ یہاں سے وہاں تک ہٹو بچو کا اعلان کرتے سَر ہی سَرگردش میں تھے۔ اور پھر ملزم ہاتھ لگ گیا۔ بنا کسی مزاحمت کے مطلوب ملزم قانون کے سخت شکنجے میں چلا تو گیا لیکن پیچھے بہت کچھ رہ گیا۔ چار بچوں کے خوف زدہ چہرے، بیوی کی نم آنکھیں، گھر کی بلکتی ضرورتیں اور بہت سارا انتظار۔ کئی دنوں سے ایک گم شدہ فرد کے اہلِ خانہ کا دکھ قریب سے دیکھ رہی ہوں اور سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہوں۔

گزرتے لمحے کی ہر ٹِک ٹِک ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں۔ اس درد کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اسے جھیل چکے ہوں۔ لاپتا افراد کا معاملہ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا انسانی المیہ بن چکا ہے۔ جمہوری قرار دیے جانے والے دور میں آمرانہ اداؤں سے لوگوں کو اپنا مطیع بنانے کے سارے غیرانسانی حربے پچھلے چند سالوں سے متواتر آزمائے جا رہے ہیں، جس سے خوف کی ایسی فضا پروان چڑھ چکی ہے کہ لوگ اب کسی عام سے معاملے پر بھی لَب کھولنے سے یوں گھبرانے لگے ہیں گویا رضا شاہ پہلوی کی بدنامِ زمانہ اور سفاک ترین ایجنسی ساواک کا پاکستان میں ظہور ہوگیا ہو۔

انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال کی طرح اس سال بھی منہ لپیٹے رخصت ہو گیا لیکن حاضر کو صیغہ غائب میں تبدیل کرنے والے اس پاکستانی کریہہ قانون کے ”پایۂ استقلال“ میں کوئی جنبش نہ آسکی۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں لسانی اور صوبائی سے لے کر فرقہ وارانہ اور سیاسی، تمام جرائم کا پشت پناہ قانون ہو، بغاوتیں ریاستی نا انصافی کی گود سے جنم لیتی ہوں، افراد کو جرائم کے دروازوں کے اندر دھکیلنے کے ذمے دار کم زور معاشرتی ادارے ہوں، وہاں فردِواحد کو سارے مسائل کی جڑ قرار دینا اور جرائم کی بیخ کنی کے نام پر راتوں رات گھروں پر چھاپے مارکر بیٹھے بٹھائے لوگوں کو غائب کردینا اور انہیں اپنے دفاع اور صفائی کا کوئی موقع فراہم نہ کرنا بھلا کون سا اصول اور کہاں کا انصاف ہے؟

سطحی نظر سے دیکھا جائے تو ہر وہ فرد قابلِ ملامت وسزا ہے جس نے کسی بھی جرم کا ارتکاب کیا ہو لیکن اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ اپنی خوشی سے مجرم کوئی نہیں بنتا، میرے نزدیک جرائم کی ترویج اور پھیلاؤ کا سراسر قصور وار تو ہٹو بچو کرتا یہی قانون ہے جس کی چھتری کے سائے میں سارے جرائم پروان چڑھتے ہیں۔ یہی قانون جس کے لیے مشہور ہے کہ وہ بلاجواز تو کسی پر ہاتھ ہی نہیں ڈالتا، مجرموں کو پہاڑوں کی کھوہ اور زیرزمین سرنگوں سے بھی ڈھونڈ نکالتا ہے، جس کی نظروں سے کچھ پوشیدہ نہیں۔

ایسا ہے تو حیرت کا زیادہ بڑا مقام ہے کہ قانون کی اتنی مستعدی کے باوجود پاکستان میں جرائم کی شرح خوف ناک حد سے تجاوز کیوں کر تی جارہی ہے؟ خفیہ اداروں کی دن دہاڑے اور اعلانیہ کارروائیوں کے باوجود کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر کیوں بن چکا ہے؟ گذشتہ سال کے مقابلے میں پنجاب میں جرائم کی شرح دگنی کیوں ہوگئی ہے؟ بلوچستان کی زمین سے مسلسل خون کے بھبھکے کیوں اٹھ رہے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ جو مجرم سالوں بعد بھی خود کو پوشیدہ نہیں رکھ پاتے وہ جرائم کا ارتکاب کرتے وقت قانون کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ جاتے ہیں؟

اس بات سے کون اتفاق نہ کرے گا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان میں ”قیامِ امن“ کے جس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اس کی رو سے جو مجرم تائب ہوکر عام زندگی کی طرف لوٹ آئے ہوں انہیں سالوں بعد پکڑ کر انسانیت سوز سزائیں دی جائیں اور جرائم کی دنیا کو پیٹھ دکھانے کا مزہ چکھایا جائے۔ ایسی صورت میں گم شدہ افراد کے لیے اس کے سوا کوئی چارا نہیں رہ جاتا کہ وہ جرائم کے پائیدان پر دوبارہ پاؤں دھر کے واپسی کا سفر کریں اور بگاڑ پیدا کرنے والے خفیہ ہاتھوں اور تنظیموں کے آلۂ کار بن کر ان کے مذموم مقاصد کی جاں فشانی سے تکمیل کریں، دوسری صورت میں ان کی ساری زندگی جیل کی سلاخوں کی پیچھے روتے اور ان کے اہلِ خانہ کی عدالت کے دروازے کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ رہ گئے وہ گم شدہ افراد جو در حقیقت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں، جبری گم شدگی تو ان کی بھی غیر اخلاقی اورغیر قانونی ہے جس کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔

لاپتا افراد کا معاملہ پاکستان کے تمام صوبوں کا مشترکہ المیہ ہونے کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بدنامی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔ آئے دن لواحقین احتجاج کے نام پر سڑکوں پر بے بس بیٹھے نظر آتے ہیں، لیکن ان کی سنوائی کسی عدالت میں نہیں۔ حتی کہ کوئی ان کو یہ تک بتانے والا نہیں کہ ان کے پیارے کون سے عقوبت خانے میں پاکستانی ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ آیا زندہ بھی ہیں یا ان کی واپسی کا انتظار لاحاصل ہے؟ عوامی خدمت کے نام پر متعلقہ تھانوں میں بیٹھا تنخواہ دار عملہ اس معاملے سے خود کو لاعلم قرار دے کر لواحقین کو ایک تھانے سے دوسرے تھانے کے چکروں میں رول کر ریاستی غفلت پر مزید مہر ثبت کرتا ہے۔

پاکستان میں اس ”نامعلوم قانون“ کی ایسی ہی بالادستی قائم رہی تو وہ دن دور نہیں جب لاپتا افراد کے بجائے ”لاپتا پاکستان“ لکھا اور کہا جانے لگے گا۔

گم شدگی کا معاملہ تو مجرموں کی حد تک بھی قابلِ برداشت نہیں لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ سچ کے لیے آواز بلند کرنے والوں سے لے کر اس بھیانک نظام کے خلاف کھل کر لکھنے اور بولنے والوں اور اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والوں کو بھی رات کے اندھیرے میں غائب کر کے ایسا مزہ چکھایا جاتا ہے کہ مہینوں بعد رہا ہو بھی جائیں تو بھی ان کے لیے آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوپاتا۔ ایک آخری امید 2018 میں تشکیل پانے والے نئے پاکستان سے تھی لیکن یہ جان کر صدمہ ہوا کہ نئے پاکستان کے ترجیحی معاملات بھینسوں اور مرغیوں سے متعلق ہیں ان کا قومی المیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).