ہندو یاتریوں کے سامنے ہمیں صرف شرمندگی ہی ہو گی


کئی برسوں بعد اس سال دوبارہ بھارت سے 160 ہندو یاتری اپنے انتہائی مقدس مذہبی مقام کٹاس راج مندر کی یاترا کے لئے براستہ واہگہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ میں اس سے پہلے بھی کٹاس راج کے تاریخی ورثے کی بربادی پر لکھ چکا ہوں۔ اور اس تاریخی ورثے کی بربادی کی کچھ تصویریں بھی لے آیا تھا۔ یہ تاریخی آثار ضلع چکوال میں قدیمی قصبہ چوا سیدن شاہ کے قریب واقع ہیں۔ ان کا تعلق مہا بھارت کے دور سے ہے، جو ہندو روایات کے مطابق 300 قبل مسیح میں لڑی گئی۔

مقدس تالاب جسے امر کنڈ کہا جاتا ہے، ہندو روایات کے مطابق ان کے بھگوان شیو کے آنسووں سے وجود میں آیا، جو انہوں نے اپنی محبوب بیوی ’ستی‘ کی وفات پر بہائے تھے۔ اس جگہ پر ایک بدھ اسٹوپا کے آثار بھی ہیں، نیز سات ہندو مندر، پانڈووں کا کنواں، کچھ قدیم غاریں اور پنجابی سکھ حکمران مہا راجا رنجیت سنگھ کی افواج کے سپہ سالار ہری سنگھ نلوہ کی حویلی بھی یہاں پر موجود ہے۔ سپریم کورٹ میں پچھلے کئی سالوں سے اس معاملے پر مہا بھارت لڑی جا رہی ہے۔

کرتار پور کاریڈور کے افتتاح کے موقعے پر جناب وزیراعظم نے بھی مذہبی سیاحت کو بڑھاوا دینے کی خوش کن باتیں کی ہیں۔ لیکن نہ ہی تو کبھی جناب عزت مآب چیف جسٹس صاحب اور نہ ہی جناب وزیر اعظم عمران خان نے اس انتہائی اہم اور تین مذاہب، بدھ مت، سکھ مت اور ہندو مت کے لئے انتہائی مقدس مقام کا خود دورہ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اس ملک کی عدالتوں میں، میڈیا پر اور دوسری کئی جگہوں پر ان مندروں کی حالت زار اور ان کے تحفظ اور بحالی کی لڑائی صرف کاغذوں پر اور باتوں سے لڑی جا رہی ہے۔

در حقیقت صورت احوال انتہائی بھیانک ہے۔ میڈیا پر ان مندروں کی جو تصاویر دکھائی جاتی ہیں، یہ 2005 ء کی ہیں۔ جب اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ اور بعد ازاں ڈپٹی وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی کی درخواست پر ان مندروں کی بحالی اور تزئین و آرائش کروائی گئی، نیز تالاب کو بھی صاف کروایا گیا۔ اس کے بعد 2006 ء میں کئی سال سے ہندو یاتریوں کی آمد کا رکا ہوا سلسلہ پھر بحال ہو گیا، لیکن 2008 ء میں ممبئی حملوں کے بعد پھر سے ختم ہو گیا۔

مندروں کی موجودہ حالت انتہائی مخدوش ہے۔ یہ تاریخی آثار اب منہدم ہونے کے قریب ہیں۔ مقدس تالاب اب سوکھ چکا ہے۔ نیلگوں پانی کی جگہ اب کچھ کیچڑ ہی باقی بچا ہے۔ عمارتوں کی دیواروں میں خطرناک دراڑیں واضح ہیں۔ دیواروں پر جا بجا لکھا گیا ہے، اور تاریخی تصاویر کو کئی جگہ سے کھرچ کر مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر جتنے افراد کو بھی بھرتی کیا گیا ہے۔ وہ یہاں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ دو چار سو روپے ان کو دے کر کوئی بھی مندروں میں کسی بھی جگہ جا سکتا ہے۔

اور اندر جا کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کسی جگہ کوئی سیکیورٹی کیمرا یا چیکنگ کا کوئی نظام نہیں لگایا گیا ہے۔ مندروں کے فرش ٹوٹ چکے ہیں۔ اور کسی مندر میں کوئی مورتی نہی رکھی ہوئی ہے۔ ان کو مندروں کی بجائے صرف خالی کھنڈر کہنا درست ہو گا۔ یہاں یاتریوں کے لئے جو بیت الخلا بنائے گئے تھے، وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یاتریوں کو قریبی اسکول کی عمارت خالی کروا کر وہاں پر ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

سرکاری کاغذات میں صرف ایک پنڈت کا تقرر کیا گیا تھا۔ لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ کیوں کہ اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں۔ تو کون اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہاں رہنے کا خطرہ اٹھائے۔ بدعنوانی اور بے حسی اب ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ جو حالت ان تاریخی آثار کی ہمارے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس پر سوائے شرمندگی کے اور کچھ ہمارے حصے میں نہیں آئے گا۔ انتظامی طور پر یہ آثار حکومت پنجاب کے ماتحت اور ان کی دیکھ بھال متروکہ وقف املاک بورڈ کے ذمہ ہے۔

2005 ء میں جب ان کی بحالی کا کام شروع ہوا تو صرف ان مندروں میں رکھنے کے لئے مورتیوں کی خریداری پر کاغذات میں پانچ کروڑ اور ساٹھ لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے کی مرمت کا بجٹ الگ تھا۔ اس وقت یہاں ایک بھی مورتی موجود نہیں ہے۔ صرف چند ہزار یا چند لاکھ روپوں سے یہاں مورتیاں رکھی جا سکتی تھیں۔ لیکن ساری رقم ہڑپ کر لی گئی۔ اس کے بعد متروکہ وقف املاک کے چیئرمین صدیق الفاروق کے مطابق ساڑھے آٹھ کروڑ روپے اور 2017 ء میں یہاں لگائے گئے ایک بورڈ کے مطابق پنجاب حکومت نے ان مندروں کی بحالی پر گیارہ کروڑ اور نوے لاکھ روپے کی رقم خرچ کی ہے۔

کوئی بھی جا کر دیکھ سکتا ہے کہ ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ سب کچھ مندروں کے نام پر ڈکار لیا گیا ہے۔ بھارت سے آنے والے 160 یاتریوں کی آمد پر یہاں پر خوب ڈھول پیٹے جائیں گے۔ کہ دیکھیے جی سکھ یاتریوں کے بعد اب ہندو یا تریوں کی آمد بھی شروع ہو گئی ہے۔ کروڑوں ہندووں کے اس مقدس ترین مقام پر سال میں صرف ایک یا دو بار صرف 160 لوگوں کا آنا ایک الگ شرمندگی ہے۔ اس سے زیادہ لوگ کو روزانہ کسی بھی غیر معروف درگاہ ہی پر آ جاتے ہیں۔

یہاں ہزاروں لاکھوں لوگ سالانہ لائے جا سکتے تھے۔ اگر ہم اس طرح بے حس اور بے ایمان نہ ہوتے۔ یہ لوگ جب اس جگہ کی نا گفتہ بہ حالت دیکھیں گے، تو بجائے خوش ہونے کے غمگین ہوں گے۔ اور جب واپس بھارت جا کر ان مقامات کی زبوں حالی کے قصے وہاں جا کر سنائیں گے، تو ہمارے حصے میں شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).