پھول ہی پھول


میں پہلے ہی رام کتھا میں شہر میں لئے گھر کے بارے میں لکھ چکی ہوں کہ وہ شہر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے سینما اور بازار دور پڑتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہماری بڑی بہنیں بابا سے ناراض ہی رہتیں کہ سینما کیسے جائیں۔

وہ گھر بڑا تھا لان پھول تھے پڑوس میں جو کہیں کہیں بنگلے بنے ہوئے تھے سب کے گھروں میں نیچے درخت ہوا کرتے تھے۔ خود ہمارے گھر میں بھی تین بڑے درخت تھے۔ شام ڈھلتے ہی چاروں طرف سناٹا سا چھا جاتا تھا۔ آخر کار بابا نے وہ گھر کرایہ پہ اٹھا کے شہر کے مرکز میں گھر لے دیا۔ یہاں ایک سینما تو صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا باقی دو صرف ساتھ آٹھ منٹ پیدل ہی جانے پر موجود تھیں۔ یہاں سے بازار بھی اتناہی دور تھا۔ اس دور کی حد درجہ اہمیت کی حامل عمارت یعنی پوسٹ آفیس صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ بابا نے اپنی بیٹیوں کی فرمائش پر شہر میں ہر سہولت کے ساتھ گھر تو لے لیا پر یہ چھوٹا تھا۔ یہاں لان پھول وغیرہ کا تو تصور ہی نہیں تھا۔

ہمارے اکلوتے بھائی کو پھولوں سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ یہاں بھی پندرہ بیس گملے لے کے آئے۔ سارے ہی پھولوں سے لدے تھے۔ گملے لاکے آنگن میں رکھوا دیے پھر بھائی تو ان کو بھول ہی گئے۔ بڑی بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔

باقی ہم چار بہنیں بھی بڑی ہوگئی تھیں۔ خاص طور پر میں تو پھولوں پر میں مرمٹتی تھی۔ رات کی رانی کے گملے کے ساتھ ہی میں اپنی چارپائی ڈلوا کے سوتی کہ رات کو مجھے خوشبو آتی رہے۔

میں ان گملوں کو روز ہی پانی دیا کرتی۔ پر آہستہ آہستہ پھول آنا کم ہوگئے اب تو پتے بھی جھڑنے لگے۔ یہ صورت حال میرے لئے پریشان کن تھی۔ گھر میں اماں سے مشورہ کیا تو بابا نے کہا ان گملوں میں کہیں سے گائے بھینس کا گوبر منگواکر ڈال دوں گی تو صحت مند ہوجائیں گے۔ گوبر تو ہماری ہی پچھلی گلی میں بہت مقدار میں موجود رہتا تھا۔

اصل میں پچھلی گلی میں بھینس والی خالہ والے رہتے تھے۔ ہمارے گھر کی پچھلی کھڑکیوں سے ان کا گھر نظر آتا تھا۔ کھڑکیوں میں ایک اِ دھر دوسری اُ دھر اماں اور بھینس والی خالہ گھنٹوں کچہری کرتی رہتیں۔ کبھی کبھار وہ ہمارے گھر آکے چکر لگاجاتیں۔ بہرحال گوہر منگوا کے میں نے گملوں کو لبالب بھر دیا۔

پر کچھ بھی حاصل نہ ہوا نہ نئے پتے آتے تھے ناہی پھول کھلتے تھے۔ آنگن میں جب شام کو بیٹھتے تو میری نظر جو گملوں پر پڑتی تھی وہ اداس ہی لوٹتی۔

ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ سامنے سڑک پر جو میونسپالٹی کی بھنگن جھاڑو لگاتی تھی وہ روز ہی صبح ہمارے گھر بھی آتی۔ اماں اور بھنگن کی دوستی خوب چل نکلی تھی۔ اس کا مگا جس وہ چائے پیتی تھی وہ آنگن میں اس تاریخی ہینڈ پمپ کے پاس الگ تھلگ پڑا ہوتا۔ اماں اور شانتی کو موضوع گفتگو اکثر جھاڑو ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اماں کو بتایا کہ گلو کوز کی ڈرپ والی ڈوری اگر جھاڑو کو کس کر باندھی جائے تو وہ زیادہ دن تک چل سکتا ہے۔

تیلیاں بھی نہیں بکھرتیں۔ اکثر وہ کمپلیمیٹری جھاڑو لگاجاتی تھی آنگن میں۔ صبح کی چائے پیتے ایک دفعہ شانتی نے کہا اری فاطمہ تیرے تو پھول ہی نہیں کھلتے پھر اس نے مزید اطلاع دی کہ آپ کے فلاں پڑوسیوں کے گھر تو بھار آئی ہوئی ہے یعنی وہاں گملوں میں خوب پھول لگ رہے تھے۔ یہ طعنہ میرے دل میں تیر کی طرح ہی لگا۔

میرا ذہن تیزی سے کوئی ترکیب سوچنے لگا جو یہی ذہن میں آئی کہ گملوں میں خود پھول نہیں لگتے تو کیا ہوا خود ہی پھول بناکے لگا دوں پھر میں نے یہی کیا پنسل سے ڈھیروں پھول بنائے۔ ان پھولوں میں لال گلابی نیلے پیلے مطلب ہر قسم کے رنگ بھرے پھر پھولوں کو قینچی سے کاٹ کر سوکھی ہوئی میں سوئی دھاگے سے ٹانگ دیا۔ دوسرے دن جب شانتی آئی تو حیران ہی رہ گئی یہاں تو ہر ایک گملا پھولوں سے لدا تھا۔

اری فاطمہ تیرے تو اتنے ڈھیر پھول کھلے ہیں۔ واقعی اتنے فاصلے سے تو پھولوں کی اصلیت کا پتا چلنا مشکل تھا۔ پر اماں نے اسے سچ ہی بتادیا کہ یہ اس نے خود بناکے لگائے ہیں۔

یہ پھول مہینوں نقلی بہار دکھاتے رہے۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ ساون جھوم کے آیا۔ بارش چھما چھم برسی اور یہ کاغذ کے پھول بھیگ بھاگ کے جھڑ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).