اوریانیت، عریانیت، عوریانیت


\"ghaffer\"جناب وجاہت مسعود ، میرے محترم دوست، بڑے بھائی اور ایک باوقار صاحب اسلوب کالم نگار اورنڈر صحافی ہیں جنہوں نے اشتراکی نظریہ کے ساتھ زندگی کے سفر کا آغاز کیا اور جب دیکھا کہ اشتراکیت کے نام پر ذاتی مفادات کے حصول کا شخصی نظریہ پروان چڑھ رہا ہے ، توان میں ایسی قوتِ فیصلہ تھی کہ اپنا راستہ الگ کر لیا۔’ ہم سب‘ اور وجاہت مسعود کو میں ایک ہی تصویر کے دو رخ سمجھتا ہوں اور یہی سوچ کر اس پلیٹ فارم پر آیا تھاکہ یہاں علمی و فکری بات ہو گی، کم از کم ٹیلی وژن پر بیٹھ کرجو بے ہودگی اور بغیر دلیل کے مناظرے کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، یہاں ایسا نہیں ہو گا۔ مگر ہمارے کچھ دوست ، ان ہی صفحات پر لبرل ازم کے موضوع پر ہونے والی سنجیدہ بحث سے دامن چھڑا کر کسی اور وادی میں آ نکلے ہیں جہاں دلیل اور علمی حوالہ کے بجائے لفظی بازی گری ہوتی ہے۔ زور ایسی ہی بے معنی ریاضت پر لگا کر نہایت فخر سے اپنے اس کام کو تخلیقی سطح پر پیش کیا جارہا ہے۔مجھے نہیں معلوم، یہ لوگ اوریا مقبول جان سے کس قدر آگاہ ہیں مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان کی ایک بیٹی بھی ہے جو بقول ان کے، اس وقت بیرون ملک میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ معلوم نہیں انہوں نے کس بات سے یہ اندازہ لگا یا کہ اوریا مقبول جان اپنی بیٹی کو بھول گئے ہیں، یہ ان کالم نگاروں کا اپنا انداز فکر اور طرز استدلال ہے۔

اوریا مقبول جان ایک سینئر بیوروکریٹ ریٹائر ہوئے ہیں، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ان کو پنجاب حکومت نے کس عہدے پر بٹھائے رکھا، اس کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے اور جب وہ سیکرٹری انفارمیشن تھے، تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو کس بات پر کیا جواب دیا تھا، ان لوگوں کی یاد داشت ایسی کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بھول گئے ہیں۔جب ان سے جونئیر کاسہ لیسوں کو ترقیاں دے دی گئیں تو انہوں نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑا اور کامیابی حاصل کی، اور ان سب کاسہ لیسوں کی ترقیاں تنزلی میں بدل گئیں۔یہ وہی اوریا مقبول ہیں جنہوں نے سود کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اپنی پنشن کی ذیل میں وہ لاکھوں روپیہ لینے سے انکار کر دیا جو سود کی ذیل میں آتا تھا، وہ سرکار کے ایوان میں بیٹھ کر حق بات کہتے رہے، حق بات لکھتے رہے۔انہوں نے جب ’ روز نامہ دنیا‘ میں کالم لکھنا شروع کیا تو سچ بتایا کہ انہیں پہلے کیا معاوضہ مل رہا تھا، میاں عامر نے اس عدد کو دگنا کر دیا مگر جب دوسرے کالم نگاروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے پہلے ہی دو تین گنا بڑھا کر بتایا اور پھر میاں عامر نے اس عدد کو بھی دگنا کر کے ان کا معاوضہ مقرر کیا تھا۔انہوں نے تو والڈ سٹی اتھارٹی کے پراجیکٹ کی مد میں کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کیا جب کہ ان سے پہلے کے افسران کے بارے میں معلوم کریں کہ وہ اپنے خاندان کے افرادکے ساتھ آغا خان کلچرل سروسز کے خرچے پر کس کس ملک میں گھو م کے آئے تھے۔انہوں نے پنجاب کا ڈومیسائل ہونے کے باوجود زندگی بلوچستان کے پہاڑوں میں کیوں گزار دی؟ جب کہ ان کے ساتھی بیوروکریٹس کو جب صرف تین سال کے لئے بلوچستان بھیجا گیا تو انہیں لگا کہ انہیں سات سمندر پار کالے پانی میں پھینک دیا گیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں مگر صرف چند ایک میں ان نوجون کالم نگاروں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو لبرل ازم کی آڑ میں اپنی اخلاقی اقدار اور اپنا منصب بھول بیٹھے ہیں کہ جب کسی بھی موضوع پر کوئی بات کرنا ہوتی ہے تو کیسے کی جاتی ہے۔ اوریا مقبول جان تو قرآن اور احادیث سے حوالے دیتے ہیں، جو اگر غلط ہیں تو ان کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے ، کم از کم آپ لوگوں کے دانشوروں اور رہنماﺅں کی ایک طویل فہرست ہے، ان کی کتابیں ہیں ، ان کے فلسفے ہیں، ان میں سے کچھ ڈھونڈھ کر موتی لائیں اور ان کے سامنے بند باندھیں، پھر تو بات بنے۔ آپ میں سے کچھ کو ان کی باریک بین نگاہ چبھنے لگی ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ آپ لوگوں کے لباس کے آر پار بھی گئی ہے، اور اس الٹرا ساﺅنڈ میں آپ خود کو برہنہ محسوس کر رہے ہیں، اور اپنے ماحول سے خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جن کو ان کے سگار میں فحاشی اور عریانیت اور غیر اسلامیت نظر آنے لگی ہے۔ ابھی آپ ان کے ہونٹوں کو، بات کرنے کے انداز کو، چائے پیتے ہونٹوں کے زاویے کو اپنی نگاہ سے دیکھیں گے تو اس میں بھی سیکس زدہ اوریا مقبول جان اپنی فرسٹریشن چھپاتا نظر آئے گا۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہاں آپ کے ہی الفاظ دہرانے چاہئیں کہ جیسا آپ اوریا مقبول جان کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ویسا ہی آپ کو نظر آنے لگتا ہے۔

”اوریا “لفظ کے معانی جن لوگوں کو نہیں معلوم، ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ کوئی یہودی نام نہیں ہے۔ ”اوریا “اس روشنی اور نور کو کہتے ہیں جو حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت کوہ طور پر دیکھنا نصیب ہوئی۔یہ اتنی تیز روشنی ہوتی ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور پھر کچھ دیر کے لیے آنکھیں کچھ بھی دیکھنے سے عاری ہو جاتی ہیں۔ اس وقت اوریا مقبول جان کے نام میں جن لوگوں کو” عریانیت، عوریانیت یا اوریانیت“ دکھائی دے رہی ہے، ان کی آنکھیں چندھیا چکی ہیں۔وہ آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت سے کچھ دیر کے لیے عاری ہو چکی ہیں۔ اوریا مقبول جان کا قصور یہ ہے کہ اس نے سوسائٹی کو آئینہ دکھایا ہے۔ وہ سوسائٹی جو آئینے میں بھی اپنی وہی شکل دیکھتی ہے کہ جیسی وہ دیکھنا چاہتی ہے۔ایک اشتہار میں اگر ایسا کوئی منظر آ گیا ہے تو اسے درست ثابت کرنے کے لیے نام نہاد لبرل ازم کے حامیوں کی دم پر پاﺅں کیوں آ گیا ہے؟کیا دنیا بھر کے ٹاپ کے اشتہار عورت کے پوشیدہ حصوں کو نمایاں یا آشکار کیے بغیر نہیں بنائے جاتے؟ کیا ہم اتنے جنس زدہ ہو گئے ہیں کہ کوئی اشتہار ایسے کسی منظر نامہ کے بغیر مکمل ہی نہیں سمجھتے؟کیا ہم کسی دوسرے کو بات کرنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں، یہی ہمارا لبرل ازم ہے۔

ہمارا معاشرہ ایسا جنس زدہ ہو گیا ہے اور ہم اتنے منافق اور خود سے جھوٹ سننے اور کہنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ سچ سننے کی ہم میں اب سکت باقی نہیں۔ہم اس معاشرے کے افراد ہیں کہ جس میں اگر ایک بیٹی اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ جائے تو ہم صبح فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بیٹی روحانی کمالات کی مالک تھی، رات سونے سے پہلے ہی بشارت دے گئی تھی کہ صبح ہم میں سے کوئی ایک فرد نہیں ہو گا۔ کمال کی لبرل وہ بیٹی اور کمال کا منافق وہ باپ، ایک جانب چھپا کر سچ بولا جا رہا ہے دوسری جانب منافقت سے حقیقت بیان کی جارہی ہے۔ ہماری حکمت، ہماری دانائی، ہمارا علم اب یہیں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔محلے میں ، شہر میں ہر فرد کو معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی بیٹی، بہن اور بیوی کس کس کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی پھر رہی ہے، اگر نہیں پتہ ہوتا تو اس کے باپ کو، خاوند کو اور اس کے بھائی کو یہ علم نہیں ہوتا۔اور اگر کوئی اوریا مقبول جان اس باپ، بھائی اور خاوند کو یہ سچ بتانے کی جرات کرے تو وہ معتوب ٹھہرے گا، اسے سنگ ساری کا حکم ہو جائے گا، اس پر الزام دھرا جائے گا کہ یہ اوروں کی بیٹیوں، بیویوں، بہنوں کو غلط نگاہ سے دیکھنے کا مجرم ہے۔یہی ہمارا معاشرہ ہے، ہم جس کے افراد ہیں۔کسی نے کہا تھا یہ مت دیکھو، کہہ کون رہا ہے، یہ دیکھو، کہا کیا جا رہا ہے۔ تو جناب یہ مت دیکھیں کہ کہنے والا اوریا مقبول جان ہے، یہ دیکھیں کہ جو وہ کہہ رہا ہے کیا وہ سچ نہیں ہے؟ذرا دومنٹ نکال کر ہمارے اسٹیج تھیٹر کی جگت، یو ٹیوب پر پنجابی مجرہ، شادیوں پر ہونے والے گھریلو خواتین کے ناچ گانے، اب اور میں کیا کہوں مجھ سے زیادہ آپ لوگ بہتر شناسا ہیں۔ میری ’ہم سب‘ کے تمام کالم نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو لفظی بازی گری اور سستی جنس زدگی سے آلودہ ذاتی اور منافقانہ تحریروں سے سجانا بند کریں اور تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے بھی کچھ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جو کہا گیا کیا وہ سچ نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments